۔ (۶۹۱۴)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ عَقِیْلَ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً مِنْ بَنِیْ جُشَمٍ فَدَخَلَ عَلَیْہِ الْقَوْمُ فَقَالُوْا: بِالرِّفَائِ وَالْبَنِیْنَ، فَقَالَ: لَا تَفْعَلُوْا ذٰلِکَ، قَالُوْا: فَمَا نَقُوْلُ یَا أَبَایَزِیْدَ؟ قَالَ: قُوْلُوْا بَارَکَ اللّٰہُ لَکُمْ وَبَارَکَ اللّٰہُ لَکُمْ وَبَارَکَ عَلَیْکُمْ، إِنَّا کَذَالِکَ کُنَّا نُؤْمَرُ۔ (مسند احمد: ۱۷۳۹)
۔ (دوسری سند) سیدنا عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بنو جشم قبیلے کی ایک خاتون سے شادی کی، جب لوگ ان کے پاس گئے تو انھوں نے کہا: اتفاق و اتحاد ہو اور بیٹے ملیں، لیکن انھوں نے کہا: اس طرح نہ کہو، لوگوں نے کہا: اے ابو یزید! تو پھر ہم کیا کہیں؟ انھوںنے کہا: تم اس طرح کہو بَارَکَ اللّٰہُ لَکُمْ وَبَارَکَ اللّٰہُ لَکُمْ وَبَارَکَ عَلَیْکُمْ (اللہ تعالی تمہارے لیے برکت کرے، اللہ تعالی تمہارے لیے برکت کرے اور اللہ تعالی تم پر برکت کرے۔) ہمیںیہ دعائیہ کلمات کہنے کا حکم دیا جاتا تھا۔
Musnad Ahmad, Hadith(6914)