۔ (۶۹۳۳)۔ (وَمِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ) عَنْ عَلْقَمَۃَ وَالْأَسْوَدِ قَالَ: أَتٰی قَوْمٌ عَبْدَ اللّٰہِ یَعْنِی ابْنَ مَسْعُوْدٍ فقَالُوْا: مَا تَرٰی فِیْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً، فَذَکَرَ الْحَدِیْث، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ اَشْجَعَ، قَالَ مَنْصُوْرٌ: أَرَاہُ، سَلَمَۃَ بْنَ یَزِیْدَ فَقَالَ: فِیْ مِثْلِ ھٰذَا قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تَزَوَّجَ رَجُلٌ مِنَّا امْرَأَۃً مِنْ بَنِیْ رُؤَاسٍ یُقَالُ لَھَا: بِرْوَعُ بِنْتُ وَاشِقٍ، فَخَرَجَ مَخْرَجًا فَدَخَلَ فِیْ بِئْرٍ فَأَسِنَ فَمَاتَ وَلَمْ یُفْرِضْ لَھَا صَدَافًا، فَأَتَوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: ((کَمَہْرِ نِسَائِہَا لَا وَکْسَ وَلَا شَطَطَ وَلَھَا الْمِیْرَاثُ وَعَلَیْہَا الْعِدَّۃُ۔))
(مسند احمد: ۱۸۶۵۲)
۔ (دوسری سند) علقمہ اور اسود کہتے ہیں: کچھ لوگ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا: اس آدمی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، جس نے شادی کی، … پھر وہی حدیث ذکر کی …، البتہ اس میں ہے : اشجع قبیلے کا سلمہ بن یزید نامی ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی قسم کے مسئلے کو یوں حل کیا تھا، ہمارے ایک آدمی نے بنو رؤاس کی بروع بنت واشق نامی خاتون سے شادی تھی، پھر وہ باہر نکلا، ایک کنویں میں داخل ہوا، وہاں اس کو غشی کا دورہ پڑا اور وہ فوت ہو گیا، جبکہ اس نے اپنی بیوی کے لیے مہر کا تعین بھی ابھی تک نہیں کیا تھا، وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پاس آئے اور یہ مسئلہ دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کو اس خاتون کی دوسری رشتہ دار عورتوں کی طرح کا مہر دیا جائے گا، اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو گی، نیز اس کو میراث بھی ملے گی اور اس پرعدت بھی ہو گی۔
Musnad Ahmad, Hadith(6933)