۔ (۷۱۸۱)۔وَعَنْہَا اَیْضًا قَالَتْ: دَخَلَتِ امْرَاَۃُ رِفَاعَۃَ الْقُرَظِیِّ وَاَنَا وَاَبُوْ بَکْرٍ عِنْدَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَتْ: اِنَّ رِفَاعَۃَ طَلَّقَنِیَ الْبَتَّۃَ وَاِنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ الزُّبَیْرِ تَزَوَّجَنِیَ وَاِنَّمَا عِنْدَہُ مِثْلُ ھُدْبَتِیْ، وَاَخَذَتْ ھُدْبَۃً مِنْ جِلْبَابِہَا، وَخَالِدُ بْنُ سَعِیْدٍ بِالْبَابِ لَمْ یُوْذَنْ لَہُ، فَقَالَ: یَا اَبَا بَکْرٍ! اَلَا تَنْہٰی ھٰذِہِ عَمَّا تَجْہُرُ بِہِ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَمَا زَادَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَلَی التَّبَسُّمِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((کَاَنَّکِ
تُرِیْدِیْنَ اَنْ تَرْجِعِیْ اِلٰی رِفَاعَۃَ؟ لَا، حَتّٰی تَذُوْقِیٰ عُسَیْلَتَہُ وَیَذُوْقَ عُسَیْلَتَکِ))۔ (مسند احمد: ۲۴۵۵۹)
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی آئی، جبکہ میں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، وہ کہنے لگی کہ رفاعہ نے مجھے طلاق بتّہ دے دی ہے اور سیدنا عبد الرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے میری شادی ہو گئی ہے، لیکن اس کا خاص عضو تو میرے اس کپڑے کے جھالر کی طرح ہے، پھر اس نے اپنی چادر کا جھالر پکڑ کر وضاحت کی، اُدھر سیدنا خالد بن سعید رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے تھے، انہیں ابھی اندر آنے کی اجازت نہیں ملی تھی، انھوں نے باہر سے ہی کہا: اے ابوبکر! تم اس خاتون کو منع کیوں نہیں کرتے، یہ کس طرح کھلے انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس قسم کی باتیں کر رہی ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بس زیر لب مسکرا دیا اور کچھ نہ کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تیرا ارادہ یہ ہے کہ تو دوبارہ رفاعہ کے پاس چلی جائے، نہیں، بالکل نہیں، تو اس وقت تک نہیں جا سکتی، جب تک کہ تو اس خاوند سے مزہ نہ اٹھا لے اور وہ تجھ سے لطف اندوز نہ ہو لے۔
Musnad Ahmad, Hadith(7181)