Blog
Books



۔ (۷۴۸)۔عَنْ عُمَرَ بْنِ اِسْحَاقَ بْنِ یَسَارٍ قَالَ: قَرَأْتُ فِی کِتَابٍ لِعَطَائِ بْنِ یَسَارٍ مَعَ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ: فَسَأَلْتُ مَیْمُوْنَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ، قَالَتْ: قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَکُلُّ سَاعَۃٍ یَمْسَحُ الْاِنْسَانُ عَلٰی الْخُفَّیْنِ وَلَا یَنْزِعُہُمَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) (مسند أحمد: ۲۷۳۶۴)
کرنے کی گنجائش ہے، البتہ اس موضوع پر درج ذیل روایت قابل توجہ ہے: حضرت عقبہ بن عامر جہنی ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: خَرَجتُ مِنَ الشَّامِ إِلٰی الْمَدِیْنَۃِ یَوْمَ الْجُمَعَۃِ، فَدَخَلْتُ عَلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: مَتٰی أَوْلَجْتَ خُفَّیْکَ فِی رِجْلَیْکَ؟ قُلْتُ: یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، قَالَ: فَھَلْ نَزَعْتَھُمَا؟ قُلْتُ: لَا۔ قَالَ: أَصَبْتَ السُّنَّۃَ۔…میں جمعہ کے روز شام سے مدینہ کی طرف روانہ ہوا، (جب وہاں پہنچا تو) حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس گیا۔ انھوں نے کہا: تم نے موزے کب پہنے تھے؟ میں نے کہا: جمعہ کے روز۔ انھوں نے پوچھا: کیا پھر ان کو اتارا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انھوں نے کہا: تم نے سنت کی موافقت کی ہے۔ (شرح معانی الآثار: ۱/۴۸،دارقطنی: ص۷۲، حاکم: ۱/۱۸۰ـ ۱۸۱،صحیحہ: ۲۶۲۲) جب صحابی کسی عمل یا قول کو سنت کہہ دے تو اس کی مراد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی سنت ہوتی ہے۔ اس حدیث کا پچھلے باب کی احادیث سے تعارض ہے، کیونکہ ان میں مسافر کو تین دنوں کی اور اس میں سات دنوں کی گنجائش دی گئی ہے۔ ان دو احادیث میں اس طرح جمع و تطبیق ممکن ہے کہ سات دنوں والی روایت کو ضرورت اور جماعت کی معیت میں رہنے کی وجہ سے موزے نہ اتار سکنے پر محمول کیا جائے، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کا بھی یہی خیال ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(748)
Background
Arabic

Urdu

English