۔ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے مجھے اسلام کی تعلیم دی اور وضاحت کی کہ میں نے کیسے ہر نماز اس کے وقت پر پڑھنی ہے۔ پھر آپ نے مجھے فرمایا: اے ابن حاتم! تیری اس وقت کیا حالت ہو گی جب تو یمن کے قلعوں پر چڑھے گا، تجھے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہو گا حتی کہ تو حیرہ کے قلعوں میں اترے گا وہ کہتے ہیں میں نے پوچھا طی قبیلہ کے شہسوار اور پیادہ (جرائم پیشہ) لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھے طی اور دیگر لوگوں سے کافی ہو جائے گا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم لوگ کتوں اور بازوں کے ذریعے شکار کرتے ہیں، ہمارے لیے ان کے شکار میں سے کیا حلال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شکاری کتے تم نے سدھائے ہیں، اس تعلیم سے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے، ان کے روکے ہوئے شکار کو کھا سکتے ہو اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا ہو اور جو کتایا باز تم نے چھوڑا ہے اور اللہ کا نام ذکر کیا ہے، تو وہ جو شکار روک کر رکھیں، وہ کھا لو۔ میںنے کہا: اگرچہ یہ شکار کو مار بھی دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ یہ مار بھی دیں، لیکن شکار سے خود نہ کھایا ہو تو انہوں نے شکار تمہارے لیے روکا ہے۔ میں نے کہا: اب یہ فرمائیں کہ چھوڑتے وقت اگر ہمارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے مل جل جاتے ہیں تو پھر کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اس وقت تک شکار نہ کھاؤ جب تک تمہیں یہ معلوم نہ ہو جائے کہ یہ شکار تمہارے کتے نے ہی کیا ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم تیر کے درمیانی موٹے حصے سے شکار کرتے ہیں، اس میں سے ہمارے لیے کیا حلال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شکار تیر کے اس حصے سے مر جائے، اس کو نہ کھاؤ، الا یہ کہ خود ذبح کر لو۔
Musnad Ahmad, Hadith(7580)