۔ سیدہ زنیب رضی اللہ عنہا جو کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں، سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب باہر کا کام ختم کرکے گھر آتے تو دروازے تک پہنچ کر کھنکارتے، تاکہ گھر والے کسی ناپسندیدہ حالت پر نہ ہوں،ایک دن وہ آئے تو کھنکارا، میرے پاس ایک بڑھیا تھی، جو مجھے ورم کا دم کررہی تھی، میں نے اسے چار پائی کے نیچے بٹھا دیا، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ داخل ہوئے اور میرے ایک پہلو میں بیٹھ گئے، جب انھوں میری گردن میں ایک دھاگا دیکھا تو کہا: یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: یہ دھاگا ہے، میرے لئے دم کیا گیا ہے، وہ باندھا ہوا ہے،ا نھوں نے اسے پکڑا اور کاٹ ڈالا اور کہا: عبداللہ کی آل اس شرک سے بے پرواہ ہے، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک جھاڑ پھونک، تعویذات اور محبت کے اعمال سب شرک ہیں۔ میں نے کہا: آپ ایسا نہ کہیں، میری آنکھ پھڑکتی تھی، میں فلاں یہودی کے پاس گئی، جو دم کرتا تھا، جب وہ دم کرتا تھا تو آنکھ پر سکون طاری ہو جاتا تھا، انھوں نے کہا: یہ شیطانی عمل تھا، وہ شیطان اپنے ہاتھ کے ساتھ مارتا تھا تو آنکھ پھڑکنے لگ جاتی تھی، جب تو دم کرواتی تو وہ شیطان ہاتھ روک لیتا تھا، تجھے وہ دعا کافی ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھا کرتے تھے: أَذْہِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِی لَا شِفَائَ إِلَّا شِفَاؤُکَ شِفَائً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا۔ (تکلیف دور کردے اے لوگوں کے رب! شفاء دے تو ہی شفاء دینے والا ہے، نہیں ہے کوئی شفائ، مگر تیری شفائ،ایسی شفاء دے جو بیماری باقی نہ چھوڑے۔)
Musnad Ahmad, Hadith(7737)