۔ ایوب، ابو قلابہ سے بیان کرتے ہیں کہ شام کے علاقہ میں طاعون پڑ گیا، سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ عذاب ہے جو بپا ہوا ہے، اس سے بھاگ جائو، گھاٹیوں اور وادیوں میں چلے جائو، لیکن جب یہ بات سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو انہوں نے اس کی تصدیق نہ کی، انہوں نے کہا: یہ عذاب نہیں ہے، بلکہ یہ تو شہادت اور رحمت ہے اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا ہے، اے اللہ! معاذ اس کے گھر والوں کو اپنی رحمت کا حصہ عطا کر۔ابوقلابہ کہتے ہیں: میں نے شہادت اور رحمت کو تو سمجھ لیا تھا، لیکن سیدنا معاذ کا یہ کہنا کہ یہ تمہارے نبی کی دعا ہے، مجھے اس کا پتہ نہ چل سکا، بعد میں مجھے بتایا گیا کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دعا میں یہ الفاظ دوہرائے: تب بخار یا طاعون، تو پھر بخار یا طاعون۔ تین بار یہ الفاظ دوہرائے،جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر والوں میں سے ایک نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! میں نے رات آپ سے ایک دعا سنی ہے، جو آپ کررہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے وہ سن لی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو قحط سالی سے ہلاک نہ کرنا، اس نے یہ مطالبہ قبول فرمالیا، میں نے دوسرا مطالبہ کیا تھا کہ ان پر ان کے غیر سے دشمن مسلط نہ کرنا، جو ان کو جڑ سے مار ڈالے، اس نے یہ مطالبہ بھی قبول کر لیااور میں نے ایک یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ میری امت کو فرقوں میں تقسیم نہ کرنا کہ یہ ایک دوسرے کو عذاب چکھانا شروع کر دیں، لیکن اللہ تعالی نے یہ دعا قبول نہ کی،پھر میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر (یہ دعا قبول نہیں کرنی) تو بخار یا طاعون میں انہیں مبتلا کردینا، بخار یا طاعون، بخار یا طاعون۔ تین بار فرمایا۔
Musnad Ahmad, Hadith(7789)