۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خواب دیکھا کہ دو فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے، ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاؤں کی جانب اور دوسرا سر کی جانب بیٹھ گیا، جو پائنتی کی جانب بیٹھا تھا، اس نے اس فرشتہ سے کہا جو سرہانے بیٹھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی مثال بیان کرو، اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی مثال اس قوم کی مانند ہے، جو ایک چٹیل میدان میں پہنچتی ہے، اس کے پاس نہ تو توشہ سفر ہے کہ اس جنگل کو طے کر سکے اور نہ ہی واپس لوٹنے کی گنجائش ہے، یہ قوم اسی حالت میں تھی کہ اس کے پاس ایک آدمی آتا ہے، جو دھاری دار جوڑ ا زیب تن کئے ہے اور وہ کہتا ہے: کیا میں تمہیں سر سبز و شاداب باغیچے میں لے چلوں، جس کا منظر نہایت ہی دلربا ہے، کیا تم میرے پیچھے چلو گے؟ وہ قوم کہتی ہے: جی ہاں چلیں گے، وہ انہیں لے کر چلتا ہے اور انہیں سرسبز و شاداب باغیوں اور حسین منظر حوضوں میں وارد کرتا ہے، وہ ان میں کھاتے پیتے ہیں اور موٹے تازے صحت مند ہو جاتے ہیں تو وہ انہیں یاد دہانی کراتا ہے، جب میری تم سے ملاقات ہوئی تھی تو تم کس حال میں تھے، پھر تم نے مجھ پر اعتماد کیا، میں نے تم سے عہد کیا تھاکہ میں تمہیں سرسبز وشاداب باغیچوں اور حسین منظر حوضوں میں وارد کروں گا، اگر تم میرے پیچھے چلو گے تو میں نے وارد کیا ہے، وہ قوم کہتی ہے: کیوں نہیں، ایسا ہی ہوا ہے، وہ کہتا ہے تو اب میں پھر کہتا ہوں: ان باغوں سے بھی زیادہ سرسبز باغ اور حسین منظر حوض اس سے آگے ہیں، میرے پیچھے چلو تو ایک گروہ نے کہا: اس نے سچ کہا ہے، ہم پیچھے جائیں گے، دوسرا گروہ کہتا ہے اتنا ہی ہمیں کافی ہے، ہم اسی پر مقیم رہنا پسند کرتے ہیں، ساتھ نہیں جاتے۔
Musnad Ahmad, Hadith(7848)