۔ (۸۴۴۹م)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍٖ) عَنْأَبِی ظَبْیَانَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَ یُّ الْقِرَائَتَیْنِ تَعُدُّونَ أَ وَّلَ؟ قَالُوْا: قِرَائَۃُ عَبْدِاللّٰہِ، قَالَ: لَا بَلْ ہِیَ الْآخِرَۃُ کَانَ یُعْرَضُ الْقُرْآنُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی کُلِّ عَامٍ مَرَّۃً، فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الَّذِی قُبِضَ فِیہِ عُرِضَ عَلَیْہِ مَرَّتَیْنِ، فَشَہِدَہُ عَبْدُ اللّٰہِ فَعَلِمَ مَا نُسِخَ مِنْہُ وَمَا بُدِّلَ۔ (مسند احمد: ۳۴۲۲)
۔ (دوسری سند) سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: تم دو قراء توں میں سے کونسی قرات پہلی شمار کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ والی قراء ت؟ انھوں نے کہا: بلکہ یہ آخری ہے، ہر سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک بار قرآن مجید پیش کیا جاتا تھا۔ جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی، اس سال دو بار پیش کیا گیا، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اس پیشی کے وقت حاضر تھے، سو انھوں نے جان لیا کہ قرآن مجید کا کونسا حصہ منسوخ ہوا اور کونسا تبدیل ہوا ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(8449)