۔ (۸۶۷۹)۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ وَہُوَ فِی بَعْضِ أَسْفَارِہِ، وَقَدْ تَفَاوَتَ بَیْنَ أَ صْحَابِہِ السَّیْرُ رَفَعَ بِہَاتَیْنِ الْآیَتَیْنِ صَوْتَہُ: (({یَا أَ یُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیمٌیَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ} [الحج: ۱۔۲] حَتّٰی بَلَغَ آخِرَ الْآیَتَیْنِ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ أَصْحَابُہُ بِذٰلِکَ حَثُّوا الْمَطِیَّ وَعَرَفُوا أَ نَّہُ عِنْدَ قَوْلٍ یَقُولُہُ، فَلَمَّا تَأَ شَّبُوا حَوْلَہُ قَالَ: ((أَ تَدْرُونَ أَ یَّیَوْمٍ ذَاکَ؟)) قَالَ: ((ذَاکَ یَوْمَیُنَادٰی آدَمُ فَیُنَادِیہِ رَبُّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: یَا آدَمُ! ابْعَثْ بَعْثًا إِلَی النَّارِ؟ فَیَقُولُ: یَا رَبِّ! وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ: مِنْ کُلِّ أَ لْفٍ تِسْعَ مِائَۃٍ وَتِسْعَۃً وَتِسْعِینَ فِی النَّارِ وَوَاحِدٌ فِی
الْجَنَّۃِ۔))، قَالَ: فَأَ بْلَسَ أَ صْحَابُہُ حَتّٰی مَا أَ وْضَحُوْا بِضَاحِکَۃٍ، فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ قَالَ: ((اعْمَلُوْا وَأَ بْشِرُوْا فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ إِنَّکُمْ لَمَعَ خَلِیقَتَیْنِ مَا کَانَتَا مَعَ شَیْئٍ قَطُّ إِلَّا کَثَرَتَاہُیَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَمَنْ ہَلَکَ مِنْ بَنِی آدَمَ وَبَنِی إِبْلِیسَ۔))، قَالَ: فَأُسْرِیَ عَنْہُمْ ثُمَّ قَالَ: ((اعْمَلُوْا وَأَ بْشِرُوْا فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ مَا أَ نْتُمْ فِی النَّاسِ إِلَّا کَالشَّامَۃِ فِی جَنْبِ الْبَعِیرِ، أَ وْ الرَّقْمَۃِ فِی ذِرَاعِ الدَّابَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۱۴۳)
۔ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ایک سفر میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی چلنے میں دورجا چکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بآواز بلند یہ دو آیتیں تلاوت کیں: {یَا أَ یُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیمٌ۔ یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ہُمْ بِسُکٰرٰی وَلٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ۔} … لوگو! اپنے رب کے غضب سے بچو، حقیقتیہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی ہولناک چیز ہے۔ جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی، ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا، اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت سخت ہوگا۔ جب صحابہ کرام نے یہ آیات سنیں تو اپنی سواریوں کو ایڑیاں لگائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی ضروری بات کہنا چاہتے ہیں، جب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کونسا دن ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ہی فرمایا: یہ وہ دن ہو گا کہ آدم علیہ السلام کو بلایا جائے گا، اللہ تعالی ان کو آواز دیں گے: اے آدم! جہنم میں بھیجے جانے والوں کو جہنم میں بھیج دو، وہ کہیں گے: اے میرے رب! کتنی تعداد؟ اللہ تعالی کہے گا: ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے دوزخ میں اور ایک جنت میں بھیج دو۔ یہ سن کر آپ کے صحابہ کرام حیران و ششدر رہ گئے اوران کی ہنسی بند ہو گی، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ صورتحال دیکھی تو فرمایا: عمل کرو اور خوش ہو جائو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! تم دو قسم کی ایسی مخلوقات کے ساتھ ہو گے کہ وہ جس کے ساتھ ہوں، ان کی تعداد کو زیادہ کر دیتی ہیں،یعنییاجوج ماجوج، بنو آدم میں سے ہلاک ہونے والے اور ابلیس کی اولاد۔ یہ سن کر صحابہ سے وہ کیفیت چھٹ گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمل کرو اور خوش ہوجائو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدکی جان ہے: تم ان لوگوں میں اونٹ کے پہلو میں چھوٹے سے نشان کی مانند ہو گے یا جانور کے گھٹنے میں نشان کی مثل ہوگے۔
Musnad Ahmad, Hadith(8679)