۔ (۸۶۸۸)۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا فِیْ حَدِیْثِ الْاِفْکِ قَالَتْ: وَاللّٰہِ! مَا کُنْتُ أَ ظُنُّ أَ نْ یَنْزِلَ فِی شَأْنِی وَحْیٌیُتْلٰی وَلَشَأْنِی، کَانَ أَ حْقَرَ
فِی نَفْسِی مِنْ أَ نْ یَتَکَلَّمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیَّ بِأَ مْرٍ یُتْلٰی، وَلٰکِنْ کُنْتُ أَ رْجُو أَ نْ یَرٰی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی النَّوْمِ رُؤْیَایُبَرِّئُنِی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہَا، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! مَا رَامَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ مَجْلِسِہِ، وَلَا خَرَجَ مِنْ أَ ہْلِ الْبَیْتِ أَ حَدٌ، حَتّٰی أَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی نَبِیِّہِ، وَأَ خَذَہُ مَا کَانَ یَأْخُذُہُ مِنْ الْبُرَحَائِ عِنْدَ الْوَحْیِ، حَتّٰی إِنَّہُ لَیَتَحَدَّرُ مِنْہُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنْ الْعَرَقِ فِی الْیَوْمِ الشَّاتِی مِنْ ثِقَلِ الْقَوْلِ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَیْہِ، قَالَتْ: فَلَمَّا سُرِّیَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَہُوَ یَضْحَکُ، فَکَانَ أَ وَّلُ کَلِمَۃٍ تَکَلَّمَ بِہَا أَ نْ قَالَ: ((أَ بْشِرِییَا عَائِشَۃُ! أَ مَّا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَقَدْ بَرَّأَ کِ۔)) فَقَالَتْ لِی أُمِّی: قُومِی إِلَیْہِ، فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَا أَ قُومُ إِلَیْہِ وَلَا أَ حْمَدُ إِلَّا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ہُوَ الَّذِی أَ نْزَلَ بَرَائَ تِی، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ {إِنَّ الَّذِینَ جَائُ وْا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ} [النور: ۱۱] عَشْرَ آیَاتٍ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہٰذِہِ الْآیَاتِ بَرَائَ تِی قَالَتْ: فَقَالَ أَ بُو بَکْرٍ: وَکَانَ یُنْفِقُ عَلٰی مِسْطَحٍ لِقَرَابَتِہِ مِنْہُ وَفَقْرِہِ: وَاللّٰہِ! لَا أُنْفِقُ عَلَیْہِ شَیْئًا أَ بَدًا بَعْدَ الَّذِی قَالَ لِعَائِشَۃَ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَا یَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ} إِلٰی قَوْلِہِ: {أَلَا تُحِبُّوْنَ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ} [النور: ۲۲] فَقَالَ أَ بُو بَکْرٍ: وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأُحِبُّ أَ نْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لِی، فَرَجَعَ إِلَی مِسْطَحٍ النَّفَقَۃَ الَّتِی کَانَ یُنْفِقُ عَلَیْہِ، وَقَالَ: لَا أَنْزِعُہَا مِنْہُ أَبَدًا، قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سَأَ لَ زَیْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَنْ أَ مْرِی: ((وَمَا عَلِمْتِ أَ وْ مَا رَأَ یْتِ أَ وْ مَا بَلَغَکِ؟۔)) قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ حْمِی سَمْعِی وَبَصَرِی وَأَ نَا مَا عَلِمْتُ إِلَّا خَیْرًا، قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَہِیَ الَّتِی کَانَتْ تُسَامِینِی مِنْ أَ زْوَاجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَعَصَمَہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِالْوَرَعِ، وَطَفِقَتْ أُخْتُہَا حَمْنَۃُ بِنْتُ جَحْشٍ تُحَارِبُ لَہَا فَہَلَکَتْ فِیمَنْ ہَلَکَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: فَہَذَا مَا انْتَہَی إِلَیْنَا مِنْ أَ مْرِ ہٰؤُلَائِ الرَّہْطِ۔ (مسند احمد: ۲۶۱۴۱)
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ حدیث الافک (یعنی بہتان والی بات) بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: اللہ کی قسم! یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے بارے میں وحی نازل ہو گی، میں اپنے اس معاملہ کو اس سے کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالی خود اس کے بارے میں کلام کریں گے اور پھر اس کلام کی تلاوت کی جائے گی، ہاں یہ مجھے امید تھی کہ میرے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب دیکھیں گے، جس کے ذریعے اللہ تعالی مجھے بری کر دیں گے، اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نشست گاہ سے حرکت نہ کی تھی اور نہ ہی گھروالوں میں سے ابھی کوئی باہر گیا تھا کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل کر دی اور وحی کے وقت سخت بوجھ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ آنا شروع ہو گیا، سردی کے سخت دن میں بھی وحی کے نازل ہوتے وقت آپ کی پیشانی سے پسینہ موتیوں کی طرح گرتا تھا، اس وحی کے بوجھ کی وجہ سے، جو آپ پر نازل ہو رہی ہوتی تھی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وحی کے نازل ہونے کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا رہے تھے، سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وحی کے بعد جو بات کی، وہ یہ تھی: اے عائشہ! خوش ہوجائو، اللہ تعالیٰ نے تمہیں بری قرار دیا ہے۔ یہ سن کرمیری ماں نے کہا : عائشہ! کھڑی ہوجا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکریہ ادا کر۔ لیکن میں نے کہا:میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کھڑی نہیں ہوں گی، میں اپنے اس اللہ کی تعریف کروں گی، جس نے میری براء ت نازل کی ہے۔ پس اللہ تعالی نے یہ بات نازل کر دیں: {إِنَّ الَّذِینَ جَائُ وْا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ} [النور: ۱۱] یہ کل دس آیات تھیں۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ مسطح پر خرچ کیا کرتے تھے کیونکہ وہ فقیر تھااور ان کا رشتہ دار بھی تھا، اس نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں تہمت والی بات کر دی تھی، اس لیے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس پر آئندہ خرچ نہیں کروں گا، یہ اس حد تک چلا گیا ہے، لیکن اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کر دی: {وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔} … اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھالیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ یہ آیت سن کر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں پسند کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے، پس انہوں نے جو مسطح کا خرچہ لگا رکھا تھا وہ دوبارہ جاری کر دیااورکہا اب میں اسے کبھی نہیں روکوں گا۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا سے میرے معاملہ کے بارے میں سوال کیا کہ تم اس بارے میں کیا جانتی ہو؟ یا کیا سمجھتی ہو؟ یا تم کو کون سی بات پہنچی ہے؟‘ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس بات سے اپنے کان اورآنکھ کو محفوظ رکھنا چاہتی ہوں! اللہ کی قسم، میری معلومات کے مطابق عائشہ میں خیر ہی خیر ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: یہ سیدہ زینب ہی امہات المومنین میں سے میرا مقابلہ کرتی تھیں،لیکناللہ تعالی نے انہیں تقویٰ کی بدولت اس معاملے میں پڑنے سے بچا لیا اور ان کی بہن سیدہ حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہا نے اپنی بہن کے ساتھ عصبیت اختیار کی اور ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوگئی۔ ابن شہاب کہتے ہیں: اس گرو ہ کے بارے میں ہمیں یہی کچھ معلوم ہو سکا۔
Musnad Ahmad, Hadith(8688)