Blog
Books



۔ (۸۶۹۹)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ: {الم غُلِبَتْ الرُّومُ} قَالَ: غُلِبَتْ وَغَلَبَتْ، قَالَ: کَانَ الْمُشْرِکُونَ یُحِبُّونَ أَ نْ تَظْہَرَ فَارِسُ عَلَی الرُّومِ لِأَ نَّہُمْ أَ ہْلُ أَ وْثَانٍ، وَکَانَ الْمُسْلِمُونَ یُحِبُّونَ أَ نْ تَظْہَرَ الرُّومُ عَلٰی فَارِسَ لِأَ نَّہُمْ أَ ہْلُ کِتَابٍ، فَذَکَرُوہُ لِأَ بِی بَکْرٍ فَذَکَرَہُ أَ بُو بَکْرٍ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ مَا إِنَّہُمْ سَیَغْلِبُونَ۔)) قَالَ: فَذَکَرَہُ أَ بُو بَکْرٍ لَہُمْ، فَقَالُوْا: اجْعَلْ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ أَ جَلًا فَإِنْ ظَہَرْنَا کَانَ لَنَا کَذَا وَکَذَا، وَإِنْ ظَہَرْتُمْ کَانَ لَکُمْ کَذَا وَکَذَا، فَجَعَلَ أَ جَلًا خَمْسَ سِنِینَ فَلَمْ یَظْہَرُوْا، فَذَکَرَ ذَلِکَ أَ بُو بَکْرٍ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَ لَا جَعَلْتَہَا إِلٰی دُونَ؟)) قَالَ: أُرَاہُ قَالَ الْعَشْرِ، قَالَ: قَالَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ: الْبِضْعُ مَا دُونَ الْعَشْرِ، ثُمَّ ظَہَرَتِ الرُّومُ بَعْدُ، قَالَ: فَذٰلِکَ قَوْلُہُ {الم غُلِبَتِ الرُّومُ} إِلٰی قَوْلِہِ: {وَیَوْمَئِذٍیَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ} قَالَ: یَفْرَحُونَ {بِنَصْرِ اللّٰہِ}۔ (مسند احمد: ۲۴۹۵)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اللہ تعالی کے اس فرمان {الٓمٓ غُلِبَتْ الرُّومُ} کے بارے میں کہتے ہیں: پہلے رومی مغلوب ہو گئے، پھر وہ غالب آ گئے، مشرکوں کو یہ بات پسند تھی کہ فارس والے رومیوںپر غالب آ جائیں، کیونکہ وہ بھی بت پرست تھے اور یہ بھی بت پرست تھے، لیکن مسلمان یہ چاہتے تھے کہ روم والے فارسیوںپرغالب آجائیں کیونکہ رومی اہل کتاب تھے، جب سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اس کا ذکر ہواتو انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ عنقریب غالب آ جائیں گے۔ جب سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ بات مشرکوں کو بتائی کہ رومی عنقریب غالب آئیں گے توانہوں نے کہا: تم ہم سے مدت مقرر کرو اور اگر ہم (شرک والے) غالب آ گئے تو ہمارے لیے اتنا اتنا مال ہو گا اور تم (کتاب والے) غالب آ گئے تو تمہیں اتنا اتنا مال دیا جائے گا، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پانچ سال کی مدت مقرر کر دی، لیکن اس عرصے میں رومی غالب نہ آ سکے، پھر جب سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس شرط کا ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے اس سے زیادہ مدت کیوں نہیں رکھی۔ راوی کہتا ہے: میرا خیال ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دس سال کی بات کی تھی، سعید بن جبیر کہتے ہیں: بِضْع اطلاق دس سے کم پر ہوتا ہے، پھر اس کے بعد رومی غالب آ گئے، اسی کے بارے میں اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: {الٓمّٓ۔ غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔ فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَہُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوْنَ۔ فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَیَوْمَیِذٍیَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ } … رومی مغلوب ہوگئے۔ سب سے قریب زمین میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آئیں گے۔ چند سالوں میں، سب کام اللہ ہی کے اختیار میں ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی اور اس دن مومن خوش ہوں گے۔
Musnad Ahmad, Hadith(8699)
Background
Arabic

Urdu

English