۔ (۸۷۳۶)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ: قَالَ لَمَّا مَرِضَ أَ بُو طَالِبٍ دَخَلَ عَلَیْہِ رَہْطٌ مِنْ قُرَیْشٍ مِنْہُمْ أَ بُو جَہْلٍ، فَقَالُوْا: یَا أَ بَا طَالِبٍ! ابْنُ أَ خِیکَیَشْتِمُ آلِہَتَنَا یَقُولُ وَیَقُولُ وَیَفْعَلُ وَیَفْعَلُ، فَأَ رْسِلْ إِلَیْہِ فَانْہَہُ، قَالَ: فَأَ رْسَلَ إِلَیْہِ أَ بُو طَالِبٍ، وَکَانَ قُرْبَ أَ بِی طَالِبٍ مَوْضِعُ رَجُلٍ فَخَشِیَ إِنْ دَخَلَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَلٰی عَمِّہِ أَ نْ یَکُونَ أَ رَقَّ لَہُ عَلَیْہِ فَوَثَبَ فَجَلَسَ فِی ذٰلِکَ الْمَجْلِسِ، فَلَمَّا دَخَلَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَمْ یَجِدْ مَجْلِسًا إِلَّا عِنْدَ الْبَابِ فَجَلَسَ، فَقَالَ أَ بُو طَالِبٍ: یَا ابْنَ أَ خِی! إِنَّ قَوْمَکَ یَشْکُونَکَ،یَزْعُمُونَ أَ نَّکَ تَشْتُمُ آلِہَتَہُمْ، وَتَقُولُ وَتَقُولُ وَتَفْعَلُ وَتَفْعَلُ، فَقَالَ: ((یَا عَمِّ! إِنِّی إِنَّمَا أُرِیدُہُمْ عَلٰی کَلِمَۃٍ وَاحِدَۃٍ، تَدِینُ لَہُمْ بِہَا الْعَرَبُ، وَتُؤَدِّی إِلَیْہِمْ بِہَا الْعَجَمُ الْجِزْیَۃَ۔))، قَالُوْا: وَمَا ہِیَ نَعَمْ وَأَ بِیکَ
عَشْرًا، قَالَ: ((لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔)) قَالَ: فَقَامُوْا وَہُم یَنْفُضُوْنَ ثِیَابَہُمْ وَھُمْ یَقُوْلُوْنَ: {اَجَعَلَ الْآلِھَۃَ اِلٰہًا وَاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ} قَالَ: ثُمَّ قَرَاَ حَتّٰی بَلَغَ {لَمَّا یَذُوْقُوْا عَذَابِ} [ص: ۵۔ ۸]۔ (مسند احمد: ۳۴۱۹)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب ابو طالب بیمار ہوئے تو قریشیوں کا ایک گروہ ان کی تیمار داری کے لئے آیا، ان میں ابو جہل بھی تھا، انہوں نے کہا: ابو طالب ! تمہارا بھتیجا ہمارے معبودوں کو گالیاں دیتا ہے، یہ کہتا ہے، یہ کہتا ہے اور ایسے ایسے کرتا ہے۔ ابو طالب نے آپ کو اپنے پاس آنے کا پیغام بھیجا، ابو طالب کے قریب ایک آدمی کی جگہ خالی تھی، ابو جہل کو خدشہ تھاکہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم داخل ہوئے تو قریب ہو کر بیٹھ جائیں گے، اور پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ ابو طالب کو اپنے بھتیجے پر ترس آ جائے، اس لیےیہ کود کر اس خالی جگہ پر بیٹھ گیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم داخل ہوئے اوربیٹھنے کی جگہ نہ پائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دروازے کے قریب ہی بیٹھ گئے۔ ابو طالب نے کہا: اے بھتیجے! تمہاری قوم تمہاری شکایت کر رہی ہے کہ تم ان کے معبودوں کو برا بھلا کہتے ہو اور یہیہ کہتے ہو اور ایسے ایسے کرتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے میرے چچا! میں ان سے ایسا کلمہ چاہتا ہوں کہ جس کی وجہ سے عرب ان کے تابع ہو جائیں گے اور عجمی ان کو جزیہ دیں گے۔ انہوں نے کہا: وہ کونسا کلمہ ہے؟ تیرے باپ کی قسم! ہم یہ اور اس طرح کی دس باتیں قبول کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لا الہ الا اللہ ہے۔ یہ سن کر وہ کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے (جیسا کہ اللہ تعالی نے کہا:) {اَجَعَلَ الْآلِھَۃَ اِلٰہًا وَاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ} … کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالا ؟ بلاشبہ یہیقینا بہت عجیب بات ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے تلاوت کی،یہاں تک کہ {لَمَّا یَذُوْقُوْا عَذَابِ} تک پہنچ گئے۔
Musnad Ahmad, Hadith(8736)