۔ (۸۷۴۸)۔ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: بَیْنَا رَجُلٌ یُحَدِّثُ فِی الْمَسْجِدِ الْأَ عْظَمِ، قَالَ: إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ نَزَلَ دُخَانٌ مِنْ السَّمَائِ، فَأَخَذَ بِأَ سْمَاعِ الْمُنَافِقِینَ وَأَ بْصَارِہِمْ، وَأَخَذَ الْمُؤْمِنِینَ مِنْہُ کَہَیْئَۃِ الزُّکَامِ، قَالَ مَسْرُوقٌ: فَدَخَلْتُ عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہُ، وَکَانَ مُتَّکِئًا فَاسْتَوٰی جَالِسًا، فَأَنْشَأَ یُحَدِّثُ فَقَالَ: یَا أَ یُّہَا النَّاسُ مَنْ سُئِلَ مِنْکُمْ عَنْ عِلْمٍ ہُوَ عِنْدَہُ فَلْیَقُلْ بِہِ، فَإِنْ لَمْیَکُنْ عِنْدَہُ فَلْیَقُلْ: اللّٰہُ أَ عْلَمُ، فَإِنَّ مِنْ الْعِلْمِ أَ نْ تَقُولَ لِمَا لَا تَعْلَمُ: اللّٰہُ أَعْلَمُ، إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ لِنَبِیِّہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : {قُلْ مَا أَسْأَ لُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَ نَا مِنْ الْمُتَکَلِّفِینَ} إِنَّ قُرَیْشًا لَمَّا غَلَبُوا النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَاسْتَعْصَوْا عَلَیْہِقَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَ عِنِّی بِسَبْعٍ کَسَبْعِ یُوسُفَ۔)) قَالَ: فَأَ خَذَتْہُمْ سَنَۃٌ أَکَلُوْا فِیہَا الْعِظَامَ وَالْمَیْتَۃَ مِنْ الْجَہْدِ حَتّٰی جَعَلَ أَحَدُہُمْ یَرٰی بَیْنَہُ وَبَیْنَ السَّمَائِ کَہَیْئَۃِ
الدُّخَانِ مِنْ الْجُوعِ فَقَالُوْا: {رَبَّنَا اکْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ} قَالَ: فَقِیلَ لَہُ: إِنَّا إِنْ کَشَفْنَا عَنْہُمْ عَادُوْا، فَدَعَا رَبَّہُ فَکَشَفَ عَنْہُمْ فَعَادُوْا فَانْتَقَمَ اللّٰہُ مِنْہُمْ یَوْمَ بَدْرٍ فَذٰلِکَ قَوْلُہُ تَعَالَی: {فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْتِی السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِینٍ} إِلٰی قَوْلِہِ: {یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرٰی إِنَّا مُنْتَقِمُونَ} [الدخان: ۱۰۔۱۶] قَالَ ابْنُ نُمَیْرٍ فِی حَدِیثِہِ: فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَلَوْ کَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَا کَشَفَ عَنْہُمْ۔ (مسند احمد: ۴۱۰۴)
۔ مسروق سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:ایک دفعہ ایک آدمی کوفہ کی مسجد اعظم میں بیان کر رہاتھا کہ قیامت کے دن آسمان سے دھواں نازل ہوگا، جو منافقوں کے کانوں اور آنکھوں کو پکڑے گا، اور ایمانداروں پر اس کایہ اثر ہو گا کہ ان کو زکام محسوس ہو گا۔ یہ سن کر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے اس بات کا ذکر کیا، وہ ٹیک لگا کر بیٹھے تھے، لیکنیہ بات سنتے ہی سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور کہا: اے لوگو! جب تم سے علمی سوال کیا جائے تو اگر اس کا علم ہو تو اس کا جواب دو اور اگر علم نہ ہو تو کہہ دیا کرو کہ اللہ اعلم (اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے)، بے شک یہ بھی علم ہی ہے کہ جس چیز کا علم نہ ہو اس کے بارے میں اللہ اعلم کہا جائے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا: {قُلْ مَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَ جْرٍ وَمَا أَ نَا مِنْ الْمُتَکَلِّفِینَ}… کہہ دوکہ میں تم سے اس پر اجرت طلب نہیں کرتا اور میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ جب قریشی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غالب آ گئے اور آپ پر سر کش ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر ان الفاظ کے ساتھ بد دعا کی: اے میرے اللہ! یوسف علیہ السلام والا سات سالہ قحط ان پر مسلط کر کے ان کے خلاف میری مدد فرما۔ پس وہ قحط سالی میں اس قدر مبتلا ہو گئے کہ انہوں نے ہڈیاں اور مردار کھانا شروع کر دیئے،وہ اس قدر تکلیف اور مشقت میں پڑ گئے کہ بھوک کی وجہ سے ان کو اپنے اور آسمان کے ما بین دھویں کی طرح کی چیز نظر آتی تھی۔ بالآخر انہوں نے کہا: اے ہمارے رب! یہ عذاب ہم سے کھول دے، ہم ایمان لانے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا گیا: اگر ان سے عذاب کھل گیا تو یہ پھر پہلی حالت میں لوٹ آئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب سے دعا کی اور اس نے ان سے عذاب دور کر دیا، لیکن جب وہ پھر اسی نافرمانی کی حالت میں لوٹ آئے تو اللہ تعالیٰ نے بدر کے دن ان کی گرفت کی،یہی صورتیں اللہ تعالی کے اس فرمان کی مصداق ہیں: {فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْتِی السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِینٍ… … یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرٰی إِنَّا مُنْتَقِمُونَ}۔ ابن نمیر کی حدیث میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر اس سے قیامت کے دن کا دھواں ہوتا تو پھر ان سے دور نہ کیا جاتا۔
Musnad Ahmad, Hadith(8748)