۔ (۸۷۵۸)۔ عَنِ ابْنِ أَ بِی مُلَیْکَۃَ قَالَ: کَادَ الْخَیِّرَانِ أَ نْ یَہْلِکَا أَ بُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، لَمَّا قَدِمَ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَفْدُ بَنِی تَمِیمٍ أَ شَارَ أَحَدُہُمَا بِالْأَ قْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِیِّ أَخِی بَنِی مُجَاشِعٍ، وَأَ شَارَ الْآخَرُ بِغَیْرِہِ، قَالَ أَ بُو بَکْرٍ لِعُمَرَ: إِنَّمَا أَ رَدْتَ خِلَافِی، فَقَالَ عُمَرُ: مَا أَ رَدْتُ خِلَافَکَ، فَارْتَفَعَتْ
أَصْوَاتُہُمَا عِنْدَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَنَزَلَتْ: {یَا أَ یُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا أَ صْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ} إِلٰی قَوْلِہِ: {عَظِیمٌ } [الحجرات: ۲] قَالَ ابْنُ أَ بِی مُلَیْکَۃَ: قَالَ ابْنُ الزُّبَیْرِ: فَکَانَ عُمَرُ بَعْدَ ذٰلِکَ، وَلَمْ یَذْکُرْ ذٰلِکَ عَنْ أَ بِیہِیَعْنِی أَ بَا بَکْرٍ، إِذَا حَدَّثَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَدَّثَہُ کَأَ خِی السِّرَارِ لَمْ یَسْمَعْہُ حَتّٰییَسْتَفْہِمَہُ۔ (مسند احمد: ۱۶۲۳۲)
۔ ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: قریب تھا کہ اس امت کے دو بہترین آدمی سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہلاک ہو جاتے،ہوا یوں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بنو تمیم کا وفد آیا تو سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما میں سے ایک نے رائے دی کہ اقرع بن حابس حنظلی کو ان کا امیر مقرر کیا جائے، جبکہ دوسرے نے اور آدمی (قعقعاع بن معبد) کا نام پیش کیا، اس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: تمہارا مقصد میری مخالفت کرنا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:، نہیں، میرا ارادہ تمہاری خلاف ورزی کرنا نہیں تھا، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں، سو یہ آیات نازل ہوئیں: {یَا أَ یُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا أَ صْوَاتَکُمْ … … عَظِیمٌ} ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ ابن زبیر نے کہا اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات کرتے تو ایک راز دان کی طرح کرتے، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات کو دوہرانے کا مطالبہ کرتے۔
Musnad Ahmad, Hadith(8758)