۔ (۸۷۶۱)۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، ثَنَا
عِیْسَی بْنُ دِیْنَارٍ، ثَنَا اَبِیْ اَنَّہُ سَمِعَ الْحَارِثَ بْنَ أَ بِی ضِرَارٍ الْخُزَاعِیِّ قَالَ: قَدِمْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَدَعَانِی إِلَی الْإِسْلَامِ، فَدَخَلْتُ فِیہِ وَأَ قْرَرْتُ بِہِ، فَدَعَانِی إِلٰی الزَّکَاۃِ فَأَقْرَرْتُ بِہَا، وَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ رْجِعُ إِلٰی قَوْمِی فَأَ دْعُوہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ، وَأَ دَائِ الزَّکَاۃِ، فَمَنِ اسْتَجَابَ لِی جَمَعْتُ زَکَاتَہُ، فَیُرْسِلُ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَسُولًا لِإِبَّانِ کَذَا وَکَذَا لِیَأْتِیَکَ مَا جَمَعْتُ مِنْ الزَّکَاۃِ، فَلَمَّا جَمَعَ الْحَارِثُ الزَّکَاۃَ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لَہُ، وَبَلَغَ الْإِبَّانَ الَّذِی أَ رَادَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَ نْ یُبْعَثَ إِلَیْہِ احْتَبَسَ عَلَیْہِ الرَّسُولُ فَلَمْ یَأْتِہِ، فَظَنَّ الْحَارِثُ أَ نَّہُ قَدْ حَدَثَ فِیہِ سَخْطَۃٌ مِنْ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولِہِ، فَدَعَا بِسَرَوَاتِ قَوْمِہِ فَقَالَ لَہُمْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ وَقَّتَ لِی وَقْتًا یُرْسِلُ إِلَیَّ رَسُولَہُ لِیَقْبِضَ مَا کَانَ عِنْدِی مِنْ الزَّکَاۃِ، وَلَیْسَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الْخُلْفُ، وَلَا أَ رٰی حَبْسَ رَسُولِہِ إِلَّا مِنْ سَخْطَۃٍ کَانَتْ، فَانْطَلِقُوْا فَنَأْتِیَ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، وَبَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَۃَ إِلَی الْحَارِثِ لِیَقْبِضَ مَا کَانَ عِنْدَہُ مِمَّا جَمَعَ مِنْ الزَّکَاۃِ، فَلَمَّا أَ نْ سَارَ الْوَلِیدُ حَتّٰی بَلَغَ بَعْضَ الطَّرِیقِ فَرِقَ فَرَجَعَ فَأَ تٰی رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ الْحَارِثَ مَنَعَنِی الزَّکَاۃَ، وَأَ رَادَ قَتْلِی، فَضَرَبَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الْبَعْثَ إِلَی الْحَارِثِ، فَأَ قْبَلَ الْحَارِثُ بِأَ صْحَابِہِ، إِذِ اسْتَقْبَلَ الْبَعْثَ، وَفَصَلَ مِنْ الْمَدِینَۃِ لَقِیَہُمْ الْحَارِثُ فَقَالُوْا: ہٰذَا الْحَارِثُ، فَلَمَّا غَشِیَہُمْ قَالَ لَہُمْ: إِلٰی مَنْ بُعِثْتُمْ؟ قَالُوْا: إِلَیْکَ، قَالَ: وَلِمَ؟ قَالُوْا: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ بَعَثَ إِلَیْکَ الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَۃَ، فَزَعَمَ أَنَّکَ مَنَعْتَہُ الزَّکَاۃَ وَأَرَدْتَ قَتْلَہُ، قَالَ: لَا، وَالَّذِی بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْحَقِّ! مَا رَأَ یْتُہُ بَتَّۃً وَلَا أَتَانِی، فَلَمَّا دَخَلَ الْحَارِثُ عَلَی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: ((مَنَعْتَ الزَّکَاۃَ وَأَرَدْتَ قَتْلَ رَسُولِی؟)) قَالَ: لَا، وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ! مَا رَأَ یْتُہُ وَلَا أَ تَانِی، وَمَا أَقْبَلْتُ إِلَّا حِینَ احْتَبَسَ عَلَیَّ رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، خَشِیتُ أَ نْ تَکُونَ کَانَتْ سَخْطَۃً مِنْ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولِہِ، قَالَ: فَنَزَلَتِ الْحُجُرَاتُ: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا إِنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوْا أَنْ تُصِیبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ} اِلٰی قَوْلِہٖتعالٰی: {فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَنِعْمَۃً وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ} [الحجرات: ۶۔۸]۔ (مسند احمد: ۱۸۶۵۰)
۔ سیدنا حارث بن ضرار خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اسلام کی دعوت دی،سو میں دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے زکوٰۃ کی دعوت دی، میں نے اس کا بھی اقرار کیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اپنی قوم کی طرف لوٹتا ہوں اور انہیں دعوتِ اسلام دیتا ہوں اور انہیں زکوٰۃ ادا کرنے کا بھی حکم دیتا ہوں، جو میری بات مان لے گا، میں اس کی زکوٰۃ جمع کر رکھوں گا، پھر میرے پاس اتنی دیر تک اپنا نمائندہ بھیجنا تا کہ جو میں نے زکوٰۃ جمع کر رکھی ہو، و ہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آئے، جب سیدنا حارث رضی اللہ عنہ نے اور ان کی بات ماننے والوں نے زکوٰۃ جمع کرلی اور وہ مدت پوری ہوگئی، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمائندہ بھیجنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا، وہ نمائندہ کسی وجہ سے رک گیا، نہ جا سکا، لیکن اُدھر سیدنا حارث رضی اللہ عنہ نے خیال کیا کہ میرے بارے میں اللہ تعالی اوراس کے رسول کے ہاں کوئی ناراضگی پیدا ہو گئی ہے، پس انہوں نے اپنی قوم کے سربر آور وہ افراد کو جمع کیا اوران سے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے پاس اتنی مدت میں نمائندہ بھیجنے کا فرمایا تھا، تا کہ وہ میرے پاس سے زکوٰۃ وصول کرے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی وعدہ خلافی بھی نہیں کرتے، نمائندہ روکنے کی وجہ میرے خیال کے مطابق یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہیں،چلو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس چلتے ہیں، (تاکہ سبب دریافت کر سکیں)، اُدھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (وعدہ کے مطابق) ولید بن عقبہ کو نمائندہ بنا کر حارث کے پاس بھیجا تھا تا کہ جو اس کے پاس زکوٰۃ کا مال جمع ہے، وہ لے آئے، جب ولید چلا، تو وہ ابھی راستے میں ہی تھاکہ ڈرا اور واپس چلا گیا اور آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! حارث نے مجھے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے اور اس نے مجھے قتل کرنا چاہا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جہادی دستہ حارث بن ضرار کی جانب بھیجا، آگے سے حارث اپنے ساتھیوں سمیت آرہا تھا، جب اس کا سامنا اس دستے سے ہوا اور دستہ مدینہ سے باہر نکل چکا تھا، تو وہ کہنے لگے: حارث تو یہ ہے، جب قریب ہوئے تو حارث نے اس دستہ والوں سے پوچھا: تمہیں کہا بھیجا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: تیری طرف، اس نے کہا: وہ کیوں؟ انھوں نے کہا: وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیری طرف ولید بن عقبہ کو بھیجا، لیکن اس کے بقول تو نے اس کو زکوٰۃ بھی نہیں دی او ر پھر اسے قتل بھی کرنا چاہا ہے۔ حارث نے کہا:نہیں، اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق دے کر مبعوث کیا ہے، میں نے تو اسے دیکھا تک نہیں اور نہ ہی وہ میرے پاس آیا ہے۔ پھر جب حارث، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: تونے زکوٰۃ بھی روک لی اور میرے نمائندے کو قتل بھی کرنا چاہا۔ حارث نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کربھیجا ہے، میں نے تو اسے دیکھا تک نہیں اور نہ ہی وہ میرے پاس آیا ہے۔ میں تو صرف اس وقت آیا ہوں، جب میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نمائندہ نہیں آیا، رک گیا ہے، سو میں خوفزدہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰیا اللہ کے رسول مجھ سے ناراض ہو گئے ہوں، سو یہ آیات نازل ہوئیں: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا إِنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوْا … … وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔}
Musnad Ahmad, Hadith(8761)