۔ (۸۷۹۰)۔ عن عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ: قَدِمَتْ قُتَیْلَۃُ ابْنَۃُ عَبْدِ الْعُزَّی بْنِ عَبْدِ أَ سْعَدَ مِنْ بَنِی مَالِکِ بْنِ حَسَلٍ عَلَی ابْنَتِہَا أَ سْمَائَ ابْنَۃِ أَ بِی بَکْرٍ بِہَدَایَا ضِبَابٍ وَأَ قِطٍ وَسَمْنٍ وَہِیَ مُشْرِکَۃٌ، فَأَ بَتْ أَ سْمَائُ أَ نْ تَقْبَلَ ہَدِیَّتَہَا وَتُدْخِلَہَا بَیْتَہَا، فَسَأَ لَتْ عَائِشَۃُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَا یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ} [الممتحنۃ: ۸] إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ
فَأَمَرَہَا أَنْ تَقْبَلَ ہَدِیَّتَہَا وَأَنْ تُدْخِلَہَا بَیْتَہَا۔ (مسند احمد: ۱۶۲۱۰)
۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتیلہ بنت عبدالعزیٰ گوہ، پنیر اور گھر جیسے تحائف لے کر اپنی بیٹی سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے پاس آئی، جبکہ وہ فتیلہ مشرک خاتون تھی، اس لیے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اس کے تحائف قبول کرنے سے انکار کر دیا اوراسے گھر میں بھی داخل ہونے سے روک دیا، پھر جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: {لَا یَنْہٰیکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۔} … اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا بر تاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ اس کا ہدیہ قبول کرلیں اور اپنے گھر میں داخل ہونے دیں۔
Musnad Ahmad, Hadith(8790)