۔ (۹۳۴۴)۔ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ اَبِیْہِ، رضی اللہ عنہ ، قَالَ: قُلْتُ: یَا َرسُوْلَ اللّٰہِ! اَیُّ النَّاسِ اَشَدُّ بَـلَائً؟ قَالَ: ((اَلاَنْبِیَائُ، ثُمَّ الصَّالِحُوْنَ، ثُمَّ الْاَمْثَلُ فَالْاَمْثَلُ، یُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلٰی حَسْبِ دِیْنِہِ، فَاِنْ کَانِ فِیْ دِیْنِہِ صَلَابَۃٌ زِیْدَ فِیْ بَلائِہِ، وَاِنْ فِیْ دِیْنِہِ رِقَّۃٌ خُفِّفَ عَنْہُ، وَمَا یَزَالُ الْبَلَائُ بِالْعَبْدِ حَتّٰییَمْشِیْ عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ لَیْسَ عَلَیْہِ خَطِیْئَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۱۴۸۱)
۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سے لوگوں کی آزمائش سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انبیائے کرام اور پھر دوسرے نیکوکار، اور پھر وہ جو دوسروں سے افضل اور بہتر ہو، دراصل آدمی کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے، پس اگر اس کے دین میں سختی اور پابندی ہو گی تو اس کی آزمائش بھی سخت ہو جائے گی اور اگر اس کے دین میں نرمی اور سستی ہو گی تو اس کی آزمائش میں بھی ہلکا پن آجائے گا اور ایسے بھی ہوتا ہے کہ ایک بندہ آزمائشوں میں مبتلا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ روئے زمینپر چل رہا ہوتا ہے اور اس کے ذمہ کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔
Musnad Ahmad, Hadith(9344)