۔ (۹۴۴۵)۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا ، قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: مَنْ اَذَلَّ لِیْ وَلِیًّا (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مَنْ آذٰی لِیْ وَلِیًّا) فَقَدِ اسْتَحَلَّ مُحَارَبَتِیْ، وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِمِثْلِ اَدَائِ الْفَرَائِضِ، وَمَا یَزَالُ الْعَبْدُ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّہُ اِنْ سَاَلَنِیْ اَعْطَیْتُہُ، وَاِنْ دَعَانِیْ اَجَبْتُہُ، مَاتَرَدَّدْتُ عَنْ شَیْئٍ اَنَا فَاعِلُہُ تَرَدُّدِیْ عَنْ
وَفَاتِہِ، لِاَنَّہُ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَاَکْرَہُ مَسَائَ تَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۶۷۲۳)
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛ جس نے میرے دوست کی توہین کی، ایک روایت میں ہے: جس نے میرے دوست کو تکلیف دی، اس نے میرے ساتھ لڑنے کو حلال سمجھ لیا ہے، اور فرائض کی ادائیگی سے ہی میرا بندہ میرا قرب حاصل کر سکتا ہے، لیکن بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں، پھر جب وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اس کو عطا کرتا ہوں اور جب وہ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کو جواب دیتا ہوں اور مجھے جتنا تردّد مؤمن کی وفات پر ہوتا ہے، اتنا کسی اور کام پر نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اس کے غم کو پسند نہیں کرتا۔
Musnad Ahmad, Hadith(9445)