۔ (۹۴۶۹)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ لَیْلٰی، قَالَ: جَائَ اَبُوْ مُوْسٰی اِلَی الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّیَعُوْدُہُ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: اَعَائِدًا جِئْتَ اَمْ شَامِتًا؟ قَالَ: لَا، بَلْ عَائِدًا، قَالَ: فقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: اِنْ کُنْتَ جِئْتَ عَائِدًا فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُوْلُ: ((اِذَا عَادَ الرَّجُلُ اَخَاہُ الْمُسْلِمَ، مَشٰی فِیْ خِرَافَۃِ الْجَنَّۃِ حَتّٰییَجْلِسَ، فَاِذَا جَلَسَ غَمَرَتْہُ الرَّحْمَۃُ، فَاِنْ کَانَ غُدْوَۃً صَلّٰی عَلَیْہِ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ حَتّٰییُمْسِیَ، وَاِنْ کَانَ مَسَائً صَلّٰی عَلَیْہِ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ حَتّٰییُصْبِحَ۔)) (مسند احمد: ۶۱۲)
۔ عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: ابو موسی، سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی بیمارپرسی کرنے کے لیے آئے، علی رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: تیمارداری کرنے کے لیے آئے ہو یا مصیبت پر خوش ہونے کے لیے؟ انھوں نے کہا: تیمار داری کرنے کے لیے۔ یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر آپ واقعی تیمار داری کرنے کے لیے آئے ہیں تو سنیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی بندہ اپنے مسلمان بھائی کی تیمار داری کرنے کے لیے جاتا ہے تو وہ جنت کے چنے ہوئے میووںمیں چل رہا ہوتا ہے اور جب وہ (مریض کے پاس) بیٹھتا ہے تو رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اگر یہ صبح کا وقت ہو تو شام تک اور شام کا وقت ہو تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔
Musnad Ahmad, Hadith(9469)