۔ (۹۷۲۳)۔ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: کُنْتُ لَا اُحْجَبُ عَنِ النَّجْوٰی، وَلَا عَنْ کَذَا، وَلَا عَنْ کَذَا قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: فَنَسِیَ وَاحِدَۃً، وَنَسِیْتُ اَنَا وَاحِدَۃً، قَالَ: فَاَتَیْتُہُ وَعِنْدَہُ مَالِکُ بْنُ مُرَارَۃَ الرَّھَاوِیُّ، فَاَدْرَکْتُ مِنْ آخِرِ حَدِیْثِہِ، وَھُوَ یَقُوْلُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَدْ قُسِمَ لِیْ مِنَ
الْجَمَالِ مَاتَرٰی، فَمَا اُحِبُّ اَنَّ اَحَدًا مِنَ النَّاسِ فَضَلَنِیْ بِشِرَاکَیْنِ فَمَا فَوْقَھَا، اَفَلَیْسَ ذٰلِکَ ھُوَ الْبَغِیُ؟ قَالَ: ((لا، لَیْسَ ذٰلِکَ الْبَغْیَ، لَکِنَّ الْبَغْیَ مَنْ بَطَرَ (قَالَ: اَوْ قَالَ: سَفِہَ) الْحَقَّ، وَغَمَطَ النَّاسَ۔)) (مسند احمد: ۳۶۴۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے نہ سرگوشی سے منع کیا جاتا تھا اور نہ فلاں فلاں چیز سے، ابن عون کہتے ہیں: ایک چیز وہ بھول گئے اور ایک مجھے یاد نہ رہی، پھر میں ان کے پاس آیا، جبکہ ان کے پاس مالک بن مرارہ رہاوی بیٹھے ہوئے تھے اور وہ کوئی حدیث بیان کر رہے تھے، اس حدیث کا آخری حصہ، جو میں نے پایا، وہ یہ تھا: انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے حسن و جمال میں سے خاصا حصہ دیا گیا ہے، آپ کو معلوم ہی ہے، اب میں چاہتا ہوں کہ کوئی آدمی دو تسموں کے معاملے میں بھی مجھ سے برتری نہ لے جائے، کیایہ سرکشی تو نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا: نہیں،یہ سرکشی نہیں ہے، سرکشی تو یہ ہے کہ حق کو ٹھکرا دیا جائے اور لوگوں کو حقیر سمجھا جائے۔
Musnad Ahmad, Hadith(9723)