Blog
Books
Search Hadith

باب: جو چیز آدمی کے پاس موجود نہ ہو اسے نہ بیچے ۔

CHAPTER: Regarding A Man Selling What He Does Not Possess.

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ حَتَّى ذَكَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا رِبْحُ مَا لَمْ تَضْمَنْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ .

Narrated Amr bin Suhaib: On his father's authority, said that his grandfather Abdullah bin Amr reported the Messenger of Allah صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم as saying: The proviso of a loan combined with a sale is not allowable, nor two conditions relating to one transaction, nor profit arising from something which is not in one's charge, nor selling what is not in your possession.

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ادھار اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں ۱؎ اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں درست ہیں ۲؎ اور نہ اس چیز کا نفع لینا درست ہے، جس کا وہ ابھی ضامن نہ ہوا ہو، اور نہ اس چیز کی بیع درست ہے جو سرے سے تمہارے پاس ہو ہی نہیں ۳؎ ( کیونکہ چیز کے سامنے آنے کے بعد اختلاف اور جھگڑا پیدا ہو سکتا ہے ) ۔
Haidth Number: 3504
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/البیوع ۱۹ (۱۲۳۴)، سنن النسائی/البیوع ۶۰ (۴۶۲۵)، سنن ابن ماجہ/التجارات ۲۰ (۲۱۸۸)، (تحفة الأشراف: ۸۶۶۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۷۴، ۱۷۸، ۲۰۵)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ بائع خریدار کے ہاتھ آٹھ سو کا سامان ایک ہزار روپیے کے عوض اس شرط پر بیچے کہ بائع خریدار کو ایک ہزار روپے بطور قرض دے گا گویا بیع کی اگر یہ شکل نہ ہوتی تو بیچنے والا خریدار کو قرض نہ دیتا، اور اگر قرض کا وجود نہ ہوتا تو خریدار یہ سامان نہ خریدتا۔ ۲؎ : مثلاً کوئی کہے کہ یہ غلام میں نے تم سے ایک ہزار نقد یا دو ہزار ادھار میں بیچا یہ ایسی بیع ہے جو دو شرطوں پر مشتمل ہے یا مثلاً کوئی یوں کہے کہ میں نے تم سے اپنا یہ کپڑا اتنے اتنے میں اس شرط پر بیچا کہ اس کا دھلوانا اور سلوانا میرے ذمہ ہے۔ ۳؎ : بائع کے پاس جو چیز موجود نہیں ہے اسے بیچنے سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ اس میں دھوکا دھڑی کا خطرہ ہے جیسے کوئی شخص اپنے بھاگے ہوے غلام یا اونٹ کی بیع کرے جب کہ ان دونوں کے واپسی کی ضمانت بائع نہیں دے سکتا، البتہ ایسی چیز کی بیع جو اپنی صفت کے اعتبار سے مشتری کے لئے بالکل واضح ہو جائز ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع سلم کی اجازت دی ہے باوجود یہ کہ بیچی جانے والی شے بائع کے پاس فی الوقت موجود نہیں ہوتی۔