Blog
Books
Search Hadith

باب: خلفاء کا بیان ۔

CHAPTER: The Caliphs.

حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْمُثَنَّى النَّخَعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي جَدِّي رِيَاحُ بْنُ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ فُلَانٍ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ وَعِنْدَهُ أَهْلُ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ فَرَحَّبَ بِهِ وَحَيَّاهُ وَأَقْعَدَهُ عِنْدَ رِجْلِهِ عَلَى السَّرِيرِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ يُقَالُ لَهُ قَيْسُ بْنُ عَلْقَمَةَ فَاسْتَقْبَلَهُ فَسَبَّ وَسَبَّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ سَعِيدٌ:‏‏‏‏ مَنْ يَسُبُّ هَذَا الرَّجُلُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ يَسُبُّ عَلِيًّا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أَرَى أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَبُّونَ عِنْدَكَ ثُمَّ لَا تُنْكِرُ وَلَا تُغَيِّرُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي لَغَنِيٌّ أَنْ أَقُولَ عَلَيْهِ مَا لَمْ يَقُلْ فَيَسْأَلَنِي عَنْهُ غَدًا إِذَا لَقِيتُهُ:‏‏‏‏ أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَاقَ مَعْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْبَرُّ فِيهِ وَجْهُهُ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ.

Rabah ibn al-Harith said: I was sitting with someone in the mosque of Kufah while the people of Kufah were with him. Then Saeed ibn Zayd ibn Amr ibn Nufayl came and he welcomed him, greeted him, and seated him near his foot on the throne. Then a man of the inhabitants of Kufah, called Qays ibn Alqamah, came. He received him and began to abuse him. Saeed asked: Whom is this man abusing? He replied: He is abusing Ali. He said: Don't I see that the companions of the Messenger of Allah صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم are being abused, but you neither stop it nor do anything about it? I heard the Messenger of Allah صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم say--and I need not say for him anything which he did not say, and then he would ask me tomorrow when I see him --Abu Bakr will go to Paradise and Umar will go to Paradise. He then mentioned the rest of the tradition to the same effect (as in No. 4632). He then said: The company of one of their man whose face has been covered with dust by the Messenger of Allah صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم is better than the actions of one of you for a whole life time even if he is granted the life-span of Noah.

ریاح بن حارث کہتے ہیں
میں کوفہ کی مسجد میں فلاں شخص ۱؎ کے پاس بیٹھا تھا، ان کے پاس کوفہ کے لوگ جمع تھے، اتنے میں سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ آئے، تو انہوں نے انہیں خوش آمدید کہا، اور دعا دی، اور اپنے پاؤں کے پاس انہیں تخت پر بٹھایا، پھر اہل کوفہ میں سے قیس بن علقمہ نامی ایک شخص آیا، تو انہوں نے اس کا استقبال کیا، لیکن اس نے برا بھلا کہا اور سب وشتم کیا، سعید بولے: یہ شخص کسے برا بھلا کہہ رہا ہے؟ انہوں نے کہا: علی رضی اللہ عنہ کو کہہ رہا ہے، وہ بولے: کیا میں دیکھ نہیں رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو تمہارے پاس برا بھلا کہا جا رہا ہے لیکن تم نہ منع کرتے ہو نہ اس سے روکتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے اور مجھے کیا پڑی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایسی بات کہوں جو آپ نے نہ فرمائی ہو کہ کل جب میں آپ سے ملوں تو آپ مجھ سے اس کے بارے میں سوال کریں: ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں پھر اوپر جیسی حدیث بیان فرمایا، پھر ان ( صحابہ ) میں سے کسی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جنگ میں شرکت جس میں اس چہرہ غبار آلود ہو جائے یہ زیادہ بہتر ہے اس سے کہ تم میں کا کوئی شخص اپنی عمر بھر عمل کرے اگرچہ اس کی عمر نوح کی عمر ہو ۲؎۔
Haidth Number: 4650
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/ المقدمة ۱۱ (۱۳۳)، (تحفة الأشراف: ۴۴۵۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۸۷)

Wazahat

وضاحت: ۱؎ : اس سے مراد مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ ۲؎ : ایک شخص کا ایمان کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ میں شریک ہونا اور اس کاگرد و غبار برداشت کرنا غیر صحابی کی ساری زندگی کے عمل سے بہتر ہے چاہے اس کی زندگی کتنی ہی طویل اور نوح علیہ السلام کی زندگی کے برابر ہو جن کی صرف دعوتی زندگی ساڑھے نو سو سال تھی، اس سے صحابہ کرام کا احترام اور ان کی فضیلت واضح ہوتی ہے اسی لئے امت کا عقیدہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا ولی کسی ادنیٰ صحابی کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا، رضی اللہ عنہم اجمعین۔