Blog
Books
Search Hadith

نماز استسقا کا بیان

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كِنَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَرْسَلَنِي أَمِيرٌ مِنَ الْأُمَرَاءِ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَسْأَلُهُ عَنِ الصَّلَاةِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ مَا مَنَعَهُ أَنْ يَسْأَلَنِي؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَاضِعًا، ‏‏‏‏‏‏مُتَبَذِّلًا، ‏‏‏‏‏‏مُتَخَشِّعًا، ‏‏‏‏‏‏مُتَرَسِّلًا، ‏‏‏‏‏‏مُتَضَرِّعًا، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَمَا يُصَلِّي فِي الْعِيدِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَخْطُبْ خُطْبَتَكُمْ هَذِهِ .

It was narrated from Hisham bin Ishaq bin ‘Abdullah bin Kinanah that his father said: “One of the chiefs* sent me to Ibn ‘Abbas to ask him about the prayer for rain. Ibn ‘Abbas said: ‘What kept him from asking me?’ He said: ‘The Messenger of Allah (ﷺ) went out humbly, walking with a humble and moderate gait, imploring, and he performed two Rak’ah as he used to pray for ‘Eid, but he did not give a sermon like this sermon of yours.’”

اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ
امراء میں سے کسی امیر نے مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس نماز استسقاء کے متعلق پوچھنے کے لیے بھیجا، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر نے مجھ سے خود کیوں نہیں پوچھ لیا؟ پھر بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاجزی کے ساتھ سادہ لباس میں، خشوع خضوع کے ساتھ، آہستہ رفتار سے، گڑگڑاتے ہوئے ( عید گاہ کی طرف ) روانہ ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کی طرح دو رکعت نماز پڑھائی، اور اس طرح خطبہ نہیں دیا جیسے تم دیتے ہو ۱؎۔
Haidth Number: 1266
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

(تراجع الألبانی: رقم:۵۳۴)

Takhreej

سنن ابی داود/الصلاة ۲۵۸ (۱۱۶۵)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۷۸ (الجمعة۴۳)(۵۵۸،۵۵۹)، سنن النسائی/الاستسقاء ۳ (۱۵۰۷)،۴ (۱۵۰۹)،۱۳ (۱۵۲۲)،(تحفة الأشراف:۵۳۵۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۳۰،۲۶۰،۳۵۵)

Wazahat

حجۃ اللہ البالغۃ میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کے لئے استسقاء کئی بار مختلف طریقوں سے کیا لیکن جو طریقہ سنت کا اپنی امت کے لئے اختیار کیا وہ یہ ہے کہ لوگوں سمیت نہایت عاجزی کے ساتھ عید گاہ تشریف لے گئے، اور دو رکعتیں پڑھیں، ان میں زور سے قراءت کی، پھر خطبہ پڑھا، اور قبلے کی طرف منہ کیا، خطبہ میں دعا مانگی، اور دونوں ہاتھ اٹھائے، اور اپنی چادر پلٹی، استسقاء کی نماز دو رکعت مسنون ہے، ان کے بعد خطبہ ہے، اس کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک استسقاء میں صرف دعا اور استغفار کافی ہے، جب کہ متعدد احادیث میں نماز وارد ہے، اور جن حدیثوں میں نماز کا ذکر نہیں ان سے نماز کی نفی لازم نہیں آتی، اور ابن ابی شیبہ نے جو عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ استسقاء کو نکلے پھر نہ زیادہ کیا استغفار پر، یہ ایک صحابی کا موقوف اثر ہے، قطع نظر اس کے سنت کے ترک سے اس کی سنیت باطل نہیں ہوتی، اور اسی پر وہ مرفوع حدیث بھی محمول ہو گی جس میں نماز کا ذکر نہیں ہے، اور صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں آپ کا وسیلہ لیتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ لیا، اس معنی میں کہ نبی اکرم ﷺ نے خود استسقاء کی نماز ادا فرمائی، اور بارش کی دعا کی، آپ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے یہاں اور کون تھا، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو نماز استسقاء کے لیے آگے بڑھایا کیونکہ آپ کی بزرگی، صالحیت اور اللہ کے رسول سے تعلق کی وجہ سے اس بات کی توقع کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں آپ کی دعا قبول ہو گی، اور بعض روایتوں میں نماز سے پہلے خطبہ وارد ہے، اور دونوں طرح صحیح ہے، (ملاحظہ ہو: الروضہ الندیہ)۔