Blog
Books
Search Hadith

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور تدفین کا بیان

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ أَبُو الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَرْبِ الْمَوْتِ مَا وَجَدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ فَاطِمَةُ:‏‏‏‏ وَا كَرْبَ أَبَتَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا كَرْبَ عَلَى أَبِيكِ بَعْدَ الْيَوْمِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّهُ قَدْ حَضَرَ مِنْ أَبِيكِ مَا لَيْسَ بِتَارِكٍ مِنْهُ أَحَدًا الْمُوَافَاةُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ .

It was narrated that Anas bin Malik said: “When the Messenger of Allah (ﷺ) suffered the agonies of death that he suffered, Fatimah said: ‘O my father, what a severe agony!’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Your father will suffer no more agony after this day. There has come to your father that which no one can avoid, the death that everyone will encounter until the Day of Resurrection.’”

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کی سختی محسوس کی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: ہائے میرے والد کی سخت تکلیف ۱؎، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کے بعد تیرے والد پر کبھی سختی نہ ہو گی، اور تیرے والد پر وہ وقت آیا ہے جو سب پر آنے والا ہے، اب قیامت کے دن ملاقات ہو گی ۲؎۔
Haidth Number: 1629
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

(سند میں عبد اللہ بن الزبیر مقبول ہیں، اور مسند احمد میں مبارک بن فضالہ نے ان کی متابعت کی ہے، اصل حدیث صحیح البخاری میں ہے، صحیح البخاری میں:«إِنَّهُ قَدْ حَضَرَ» کا جملہ نہیں ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۷۳۸)

Takhreej

تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۵۰، ومصباح الزجاجة:۵۹۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المغازي ۸۳ (۴۴۴۸)، مسند احمد (۳/۱۴۱)

Wazahat

فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ نوحہ میں داخل نہیں ہیں کیونکہ یہ الفاظ اس وقت کے ہیں جب آپ ابھی زندہ تھے، اور جان کنی کے عالم میں تھے جیسا کہ اس سے پہلے کی روایت سے ظاہر ہے، اور بعض لوگوں نے کہا کہ میت میں جو خوبیاں فی الواقع موجود رہی ہوں ان کو بیان کرنا نوحہ نہیں ہے، بلکہ نوحہ میت میں ایسی خوبیاں ذکر کرنے کا نام ہے جو اس میں نہ رہی ہوں۔ ۲؎: حالانکہ ملاقات مرنے کے بعد ہی عالم برزخ میں ہو جاتی ہے جیسا کہ دوسری حدیثوں سے ثابت ہے، پھر اس کا کیا مطلب ہو گا؟ یہاں یہ اشکال ہوتا ہے، اور ممکن ہے کہ ملاقات سے دنیا کی طرح ہر وقت کی یکجائی اور سکونت مراد ہو اور یہ قیامت کے بعد ہی جنت میں ہو گی جیسے دوسری روایت میں ہے کہ ایک بار نبی کریم ﷺ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں تشریف لے گئے، علی رضی اللہ عنہ کو سوتا پایا، ارشاد ہوا کہ یہ سونے والا، اور میں اور تو جنت میں ایک مکان میں ہوں گے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ کا درجہ آخرت میں بہت بلند ہو گا کیونکہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک مکان میں رہیں گے، اور ظاہر ہے نبی کریم ﷺ کا مقام جنت الفردوس میں سب سے بلند ہو گا، واللہ اعلم۔