Blog
Books
Search Hadith

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نفلی روزوں کا بیان

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي لَبِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ عَائِشَةَعَنْ صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ صَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ أَفْطَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ أَرَهُ صَامَ مِنْ شَهْرٍ قَطُّ أَكْثَرَ مِنْ صِيَامِهِ مِنْ شَعْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ إِلَّا قَلِيلًا .

It was narrated that Abu Salamah said: “I asked ‘Aishah about the fasting of the Prophet (ﷺ). She said: ‘He used to fast until we thought he would always fast. And he used to not fast until we thought he would always not fast. I never saw him fast more in any month than in Sha’ban. He used to fast all of Sha’ban; he used to fast all of Sha’ban except a little.’”

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ
میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے یہاں تک کہ ہم یہ کہتے کہ آپ روزے ہی رکھتے جائیں گے، اور روزے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھیں گے ہی نہیں، اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، آپ سوائے چند روز کے پورے شعبان روزے رکھتے تھے ۱؎۔
Haidth Number: 1710
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

صحیح مسلم/الصوم ۳۴ (۱۱۵۶)، سنن النسائی/الصوم ۱۹ (۲۱۷۹)،(تحفة الأشراف:۱۷۷۲۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۵۲ (۱۹۶۹)، سنن ابی داود/الصوم ۵۹ (۲۴۳۴)، سنن الترمذی/الصوم ۳۷ (۷۳۶)، موطا امام مالک/الصیام ۲۲ (۵۶)، مسند احمد (۶/۳۹،۸۰،۸۴،۸۹،۱۰۷،۱۲۸،۱۴۳،۱۵۳،۱۶۵،۱۷۹،۲۳۳،۲۴۲،۲۴۹،۲۶۸)

Wazahat

شعبان کے مہینے میں آپ ﷺ کے کثرت سے روزے رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس مہینے میں انسان کے اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں، تو آپ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ آپ کے اعمال اللہ کے پاس حالت روزے میں پیش ہوں، اور چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے یہ روزے آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتے تھے اس لیے پندرہویں شعبان کے بعد بھی آپ کے لیے روزہ رکھنا جائز تھا، اس کے برخلاف امت کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ شعبان کے نصف ثانی میں روزے نہ رکھے تاکہ رمضان کے روزوں کے لیے قوت و توانائی برقرار ہے۔