Blog
Books
Search Hadith

میت کے نذر والے روزے کے حکم کا بیان

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمٌ، ‏‏‏‏‏‏أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ .

It was narrated from Ibn Buraidah that his father said: “A woman came to the Prophet (ﷺ) and said: ‘O Messenger of Allah, my mother has died and she owed a fast. Should I fast on her behalf?’ He said: ‘Yes.’”

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میری ماں کا انتقال ہو گیا، اور اس پر روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہعلیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۱؎۔
Haidth Number: 1759
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

صحیح مسلم/الصوم ۲۷ (۱۱۴۹)، سنن ابی داود/الزکاة ۳۱ (۱۶۵۶)، الوصایا ۱۲ (۲۸۷۷)، الإیمان ۲۵ (۳۳۰۹)، سنن الترمذی/ الزکاة ۳۱ (۶۶۷)،(تحفة الأشراف:۱۹۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۵۱،۳۶۱)

Wazahat

علامہ ابن القیم فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے نذر کا روزہ رکھنا جائز ہے، اور فرض اصلی یعنی رمضان کا جائز نہیں، عبداللہ بن عباس اور ان کے اصحاب اور امام احمد کا یہی قول ہے اور یہ صحیح ہے کیونکہ فرض روزہ مثل نماز کے ہے، اور نماز کوئی دوسرے کی طرف سے نہیں پڑھ سکتا، اور نذر مثل قرض کے ہے تو میت کی طرف سے وارث کا ادا کرنا کافی ہو گا، جیسے اس کی طرف سے قرض ادا کرنا، الروضہ الندیہ میں ہے کہ میت کی طرف سے ولی کا روزہ رکھنا اس وقت کافی ہو گا جب اس نے عذر سے صیام رمضان نہ رکھے ہوں، لیکن اگر بلا عذر کسی نے صیام رمضان نہ رکھے تو اس کی طرف سے ولی کا روزے رکھنا کافی نہ ہو گا جیسے میت کی طرف سے توبہ کرنا، یا اسلام لانا یا نماز ادا کرنا کافی نہیں ہے، اور ظاہر مضمون حدیث کا یہ ہے کہ ولی پر میت کی طرف سے روزہ رکھنا یا کھانا کھلانا واجب ہے خواہ میت نے وصیت کی ہو اس کی یا نہ کی ہو۔