Blog
Books
Search Hadith

جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ تَمِيمِ بْنِ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَسِعَ سَمْعُهُ الْأَصْوَاتَ، ‏‏‏‏‏‏لَقَدْ جَاءَتِ الْمُجَادِلَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ تَشْكُو زَوْجَهَا ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا أَسْمَعُ مَا تَقُولُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ:‏‏‏‏ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا سورة المجادلة آية 1.

It was narrated that 'Aishah said: Praise is to Allah Whose hearing encompasses all voices. The woman who disputed concerning her husband (Al-Mujadilah) came to the Prophet when I was (sitting) in a corner of the house, and she complained about her husband, but I did not hear what she said. The Allah revealed: 'Indeed Allah has heard the statement of her that disputes with you concerning her husband.'

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی سماعت تمام آوازوں کا احاطہٰ کئے ہوئے ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگی، میں گھر کے ایک گوشہ میں تھی اور اس کی باتوں کو سن نہیں پا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:«قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها» بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی ( سورة المجادلة: ۱ ) ۱؎۔
Haidth Number: 188
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

«صحیح البخاری/التوحید ۹ (۷۳۸۵)، (تعلیقاً)، سنن النسائی/ الطلاق ۳۳ (۳۴۹۰)، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۳۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/ ۴۶)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۲۰۶۳)

Wazahat

یہ آیت اوس بن صامت کی بیوی خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کے حق میں نازل ہوئی، ایک بار ان کے شوہر نے ان کو بلایا تو انہوں نے عذر کیا، اس پر اوس رضی اللہ عنہ نے خفا ہو کر کہا: تم میرے اوپر ایسی ہو جیسی میری ماں کی پیٹھ، اسے شرعی اصطلاح (زبان) میں ظہار کہتے ہیں، پھر وہ نادم ہوئے، ظہار و ایلاء جاہلیت کا طلاق تھا، غرض خولہ کے شوہر نے کہا کہ تم مجھ پر حرام ہو، تو وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اس وقت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کا سر مبارک دھو رہی تھیں، خولہ نے کہا: اللہ کے رسول میرے شوہر اوس بن صامت نے جب مجھ سے شادی کی تھی تو میں جوان اور مالدار تھی، پھر جب انہوں نے میرا مال کھا لیا، اور میری جوانی مٹ گئی، اور میرے عزیز و اقارب چھوٹ گئے، اور میں بوڑھی ہو گئی تو مجھ سے ظہار کیا، اور وہ اب اپنے اس اقدام پر نادم ہیں، تو کیا اب کوئی صورت ایسی ہے کہ میں اور وہ مل جائیں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم اس پر حرام ہو گئی ، پھر انہوں نے کہا کہ میں اپنے اللہ کے سامنے اپنے فقر و فاقہ اور تنہائی کو رکھتی ہوں، ایک مدت دراز تک میں ان کے پاس رہی اور ان سے میرے بچے ہیں جن سے مجھے پیار ہے، آپ ﷺ نے پھر فرمایا: تم اس پر حرام ہو، اور مجھے تمہارے بارے میں کوئی حکم نہیں ہوا ، پھر خولہ نے بار بار نبی اکرم ﷺ سے اپنے احوال و مشکلات کا اظہار کیا، اور جب نبی اکرم ﷺ فرماتے کہ تم اس پر حرام ہو گئی تو وہ فریادیں کرتیں اور کہتیں کہ میں اللہ کے سامنے اپنے فقر و فاقہ اور شدت حال کو رکھتی ہوں، میرے چھوٹے بچے ہیں، اگر میں ان کو شوہر کے سپرد کر دوں تو وہ برباد ہوں گے، اور اگر اپنے پاس رکھوں تو بھوکے مریں گے، اور بار بار آسمان کی طرف اپنا سر اٹھاتی تھیں کہ یااللہ میں تجھ سے فریاد کرتی ہوں، یااللہ تو اپنا کوئی حکم اپنے نبی ﷺ کی زبان پر اتار دے کہ جس سے میری مصیبت دور ہو، اسلام میں ظہار کا یہ پہلا واقعہ تھا، اور دوسری طرف ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺ کا سر دھونے میں مشغول تھیں، تو خولہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے سنا کہ اللہ کے نبی میرے لئے کچھ غور کریں، اللہ مجھے آپ پر فدا کرے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ذرا تم خاموش رہو، رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک دیکھتی نہیں ہو، نبی اکرم ﷺ کی حالت یہ ہوتی تھی کہ جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپ پر اونگھ طاری ہو جاتی، پھر جب وحی اتر چکی تو آپ ﷺ نے فرمایا: خولہ نے اپنے شوہر کا شکوہ کیا ، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: «قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها» بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی (سورة المجادلة: 1)۔ اس قصہ سے بڑے عمدہ فوائد معلوم ہوئے: (۱) آیت کا شان نزول کہ یہ آیت حکم ظہار پر مشتمل ہے، اور اس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ (۲) صحابہ رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ جب کوئی حادثہ پیش آتا تو وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے، اور یہی حکم ہے ساری امت کے لئے کہ مشکلات و مسائل میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کریں، اگرچہ نبی اکرم ﷺ دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں مگر آپ کی سنت (احادیث شریفہ) اور کتاب (قرآن مجید) ہمارے درمیان ہے، اور دنیا میں یہی دونوں چیزیں اہل اسلام کے لیے ترکہ اور میراث ہیں، «فمن أخذه أخذ بحظ وافر»۔ (۳) انبیاء کی بشریت اور مجبوری کہ وہ بھی تمام امور میں اللہ کے حکم کے منتظر رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خولہ رضی اللہ عنہا کو کچھ جواب نہ دیا جب تک کہ رب السماوات نے حکم نہ اتارا۔ (۴) سابقہ شرائع پر ہمارے لئے عمل واجب ہے جب تک کہ اس کے نسخ کا علم ہم تک نہ پہنچے، اور اسی کے موافق نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم ان پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو گئی، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس کا نسخ اتارا تو آپ ﷺ نے ناسخ کے موافق حکم دیا۔ (۵) صراحت کے ساتھ اور محسوس اشارے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے علو اور فوقیت کا ثبوت کہ خولہ رضی اللہ عنہا بار بار اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتی تھیں اور کہتی تھیں کہ میں اللہ تعالیٰ سے اپنی حالت بیان کرتی ہوں، اور نبی اکرم ﷺ نے ان کے اس امر کی تقریر و تصویب فرمائی اور کوئی اعتراض نہ کیا، اور اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی جانب و جہت خاص نہ ہو، اور رسول اکرم ﷺ کے سامنے کوئی اللہ تعالیٰ کے لئے جہت کو خاص کرے اور آپ ﷺ اس پر خاموش رہیں، اور اللہ تعالیٰ کی معرفت میں جو اسلام کی اساس اور ایمان کی بنیاد ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جہالت اور بدعقیدگی کو گوارہ کریں یہ محال بات ہے، اور اس سے بھی محال اور بعید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس علو اور فوقیت کے عقیدہ کو ناپسند کرے، اور اس پر تنبیہ نہ کر کے ظہار کے بارے میں اپنے احکام اتارے اور صحیح عقیدہ کی تعلیم نہ دے، خلاصہ یہ ہے کہ اس قصے میں اللہ تعالیٰ کے لیے علو اور بلندی کی بات پورے طورپر واضح ہے، اور سلف صالحین اور ائمہ اسلام کے یہاں یہ مسئلہ اجماعی ہے۔ (۶) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ و صحابیات کو رسول اکرم ﷺ سے کتنی محبت تھی، اور وہ کس ادب و احترام کے ساتھ آپ سے مخاطب ہوتے تھے، اور بات بات میں اپنے آپ کو رسول اکرم ﷺ پر فدا کرتے تھے، اور یہی نسبت ضروری ہے ہر مسلمان کو آپ کی سنت شریفہ سے کہ دل و جان سے اس پر عمل کرے۔ (۷) اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے لئے«سمع و بصر» (سننے اور دیکھنے) کی صفات ثابت ہوئیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «إن الله سميع بصير» یقینا اللہ تعالیٰ سننے اور دیکھنے والا ہے (سورة المجادلة: 1) اور فرمایا: «قال لا تخافا إنني معكما أسمع وأرى» اللہ نے (موسیٰ و ہارون) سے کہا تم بالکل نہ ڈرو میں تمہارے ساتھ ہوں، اور سنتا اور دیکھتا رہوں گا (سورة طه: 46)۔ اور ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے۔ جب بلندی پر چڑھتے تو «اللہ اکبر» کہتے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی جانوں پر نرمی کرو، اس لئے کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکارتے، بلکہ «سمیع و بصیر» (سننے والے دیکھنے والے) کو پکارتے ہو ۔