Blog
Books
Search Hadith

قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت لینے کا بیان

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ الْمَوْصِلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عَلَّمْتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ الْقُرْآنَ وَالْكِتَابَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَهْدَى إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْهُمْ قَوْسًا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنْ سَرَّكَ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ تُطَوَّقَ بِهَا طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْهَا .

It was narrated that 'Ubadah bin Samit said: I taught people from Ahtus-Suffah Qur'an and how to write, and one of them gave me a bow. I said: 'It is not money, and I can shoot (with it) for the sake of Allah., I asked the Messenger of Allah (ﷺ) about it and he said: 'If it would please you to have a necklace of fire placed around your neck, then accept it.'

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
میں نے اہل صفہ میں سے کئی لوگوں کو قرآن پڑھنا اور لکھنا سکھایا، تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے ایک کمان ہدیے میں دی، میں نے اپنے جی میں کہا: یہ تو مال نہیں ہے، یہ اللہ کے راستے میں تیر اندازی کے لیے میرے کام آئے گا، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم کو یہ اچھا لگے کہ اس کمان کے بدلے تم کو آگ کا ایک طوق پہنایا جائے تو اس کو قبول کر لو ۱؎۔
Haidth Number: 2157
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

(سند میں اسود بن ثعلبہ مجہول راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۲۵۶)

Takhreej

سنن ابی داود/البیوع ۳۷ (۳۴۱۶)،(تحفة الأشراف:۵۰۶۸)، وقدأخرجہ: مسند احمد (۵/۳۱۵)

Wazahat

اہل صفہ وہ صحابہ جو مسجد نبوی کے سائبان میں رہا کرتے تھے۔ اس حدیث سے حنفیہ نے استدلال کرتے ہوئے تعلیم قرآن پر اجرت لینے کو ناجائز کہا ہے، تلاوت پر اجرت لینا جائز ہے، تلاوت پر اجرت لینے کا جواز ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نکلتا ہے (جو اوپر گزری، ملاحظہ ہو حدیث ۲۱۵۶)، اور صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگوں نے ابوسعید سے کہا: آپ نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی، اس پر انہوں نے فرمایا کہ سب سے زیادہ جس کے اجرت لینے کا حق ہے، وہ اللہ کی کتاب ہے، اور احمد، ابوداود اور نسائی میں ہے کہ خارجہ کے چچا نے جب سورہ فاتحہ سے دیوانے پر جھاڑ پھونک کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم اس کی اجرت لے لو، قسم میری عمر کی! لوگ تو جھاڑ پھونک سے جھوٹ پیدا کرتے ہیں تو نے سچ جھاڑ پھونک کر کے کھایا۔ اور تعلیم پر اجرت جائز نہ ہونے کی دلیل عبادہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے، دوسرے ابی رضی اللہ عنہ کی حدیث جو آگے آ رہی ہے، تیسرے مسند احمد میں عبدالرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً آیا ہے کہ قرآن پڑھو، اس میں غلو اور جفا مت کرو اور اس سے روٹی مت کھاؤ اور مال مت بڑھاؤ، بزار نے بھی اس کے کئی شاہد ذکر کئے ہیں۔ چوتھی مسند احمد و ترمذی میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ہے کہ نبی کریم ﷺ سے فرمایا: قرآن پڑھو اور اللہ تعالی سے قرآن کا بدلہ مانگو، اس لئے کہ تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو لوگوں سے قرآن کا عوض مانگیں گے، اس باب میں کئی حدیثیں ہیں۔ لیکن جن علماء نے تعلیم قرآن پر اجرت کے جواز کا فتوی دیا ہے وہ اس اعتبار سے کہ اس کے سیکھنے سکھانے میں معلم نے اپنا وقت لگایا، تو اس کے لئے اس نیک عمل پر اجرت کا لینا وقت کے مقابل جائز ہوا۔