Blog
Books
Search Hadith

اجتہاد کر کے صحیح فیصلہ تک پہنچنے والے حاکم کے اجر و ثواب کا بیان

Chapter: When The Judge Does His Best (To Reach A Verdict) And Gets It Right

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ تَوْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو هَاشِمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَوْلَا حَدِيثُ ابْنِ بُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ:‏‏‏‏ اثْنَانِ فِي النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَوَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ رَجُلٌ عَلِمَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ وَرَجُلٌ قَضَى لِلنَّاسِ عَلَى جَهْلٍ فَهُوَ فِي النَّارِ وَرَجُلٌ جَارَ فِي الْحُكْمِ فَهُوَ فِي النَّارِ لَقُلْنَا إِنَّ الْقَاضِيَ إِذَا اجْتَهَدَ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ .

Abu Hashim said: “Were it not for the Hadith of Ibn Buraidah from his father, from the Prophet (ﷺ) who said: 'Judges are of three types, two of whom will be in Hell and one will be in Paradise. The man who knows the truth and rules in accordance with it, will be in Paradise. The man who passes judgment on the people in ignorance will be in Hell' - we would have said that if the judge does his best he will be in Paradise.”

ابوہاشم کہتے ہیں کہ
اگر ابن بریدہ کی یہ روایت نہ ہوتی جو انہوں نے اپنے والد ( بریدہ رضی اللہ عنہ ) سے روایت کی ہے، اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاضی تین طرح کے ہیں: ان میں سے دو جہنمی ہیں اور ایک جنتی، ایک وہ جس نے حق کو معلوم کیا اور اسی کے مطابق فیصلہ دیا، تو وہ جنت میں جائے گا، دوسرا وہ جس نے لوگوں کے درمیان بغیر جانے بوجھے فیصلہ دیا، تو وہ جہنم میں جائے گا، تیسرا وہ جس نے فیصلہ کرنے میں ظلم کیا ( یعنی جان کر حق کے خلاف فیصلہ دیا ) تو وہ بھی جہنمی ہو گا ( اگر یہ حدیث نہ ہوتی ) تو ہم کہتے کہ جب قاضی فیصلہ کرنے میں اجتہاد کرے تو وہ جنتی ہے۔
Haidth Number: 2315
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

سنن ابی داود/الأقضیة ۲ (۳۵۷۳)،(تحفة الأشراف:۲۰۰۹)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأحکام ۱ (۱۳۲۲)

Wazahat

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف اجتہاد کافی نہیں ہے بلکہ حق کا علم یعنی یقین ضروری ہے، علماء کے نزدیک یہ حدیث تہدید و تشدید پر محمول ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ قضا کے لئے صرف اجتہاد یعنی غلبہ ظن کافی ہے، اس میں غلطی کا احتمال رہتا ہے، اور دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ مجتہد اگر خطا بھی کرے گا تو اسے ایک اجر ملے گا، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قاضی کا مجتہد ہونا ضروری ہے، اور مقلد کا قاضی ہونا صحیح نہیں ہے کیونکہ کتاب و سنت کے علم کا اطلاق صرف مجتہد پر ہوتا ہے، اور مقلد تو کتاب و سنت اور دلیل سے بےخبر ہوتا ہے، صرف اپنے امام کا قول معلوم کر لیتا ہے، لہذا مجتہد کتاب و سنت کی روشنی میں اس بات کا فیصلہ کرے گا جو اللہ تعالی اس کو دکھائے ہیں، مقلد تو اپنے امام کی رائے کے مطابق فیصلہ کرے گا، اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ» (سورة المائدة: 44) «وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ» (سورة المائدة 45) «وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ» (سورة المائدة:47) اور اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کرنا مجتہد کی شان ہے مقلد کی نہیں، اور معاذ رضی اللہ عنہ کی رائے سے متعلق مشہور حدیث جس کی صحت میں بعض علماء نے کلام کیا ہے، میں ان کا قول ہے کہ (میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا، اگر اس میں نہ ملے گا تو حدیث سے اور اگر اس میں نہ ملے گا تو پھر اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا) یہ بھی مجتہد کی شان ہے، مقلد تو نہ قرآن کو دیکھتا ہے نہ حدیث کو، صرف درمختار، کنز اور وقایہ پر عمل کرتا ہے، اور اس کو یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ یہ حکم کتاب وسنت میں موجود بھی ہے یا نہیں۔ (ملاحظہ ہو: الروضۃ الندیۃ)