Blog
Books
Search Hadith

قوم لوط کے عمل (اغلام بازی) کی سزا کا بیان

حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي عَمَلُ قَوْمِ لُوطٍ .

It was narrated from Jabir bin`Abdullah that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “The thing that I most fear for my nation is the action of the people of Lut.”

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ قوم لوط کے عمل یعنی اغلام بازی کا ہے ۱؎۔
Haidth Number: 2563
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

(شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں عبد اللہ بن محمد بن عقیل منکر الحدیث ہیں)

Takhreej

«سنن الترمذی/الحدود ۲۴ (۱۴۵۷)،(تحفة الأشراف:۲۳۶۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۸۲)

Wazahat

ابن الطلاع مالکی أقضیۃ الرسول ﷺ میں کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے لواطت میں رجم ثابت نہیں ہے اور نہ اس کے بارے میں آپ کا کوئی فیصلہ ہی ہے، بلکہ ابن عباس، ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو، اور بیہقی نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے ایک اغلام باز کو رجم کیا (۸/۲۳۲)، شافعی کہتے ہیں کہ ہمارا یہی قول ہے کہ وہ رجم کیا جائے، چاہے شادی شدہ ہو یا کنوارا، اور بیہقی نے روایت کی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک مفعول کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کیا، تو اس دن سب سے زیادہ سخت رائے علی رضی اللہ عنہ نے دی اور کہا: اس گناہ کو کسی امت نے نہیں کیا سوائے ایک امت کے، تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو آگ سے جلا دیں، تو صحابہ کرام نے اس کو آگ سے جلانے پر اتفاق کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ اس کو آگ سے جلا دو، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، اس کی سند میں ابراہیم بن ابی رافع مدینی ضعیف راوی ہے، بعضوں نے اس کو جھوٹا کہا ہے، لیکن اس کا دوسرا طریق بھی ہے، جس سے روایت صرف مرسل ہے۔ ابوداود نے صحیح سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ اغلام بازی کرنے والے کو رجم کیا جائے گا، اور بیہقی نے صحیح سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ ان سے اغلام بازی کرنے والے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: سب سے اونچے مکان سے اوندھا کر کے گرا دیا جائے، پھر پتھروں سے کچلا جائے ۔ اغلام بازی متفقہ طور پر حرام اور کبیرہ گناہ ہے، لیکن اس کی سزا کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، اوپر بعض صحابہ کا مذہب مذکور ہوا کہ اس کی سزا قتل ہے، چاہے وہ غیر شادی شدہ ہو، اور فاعل اور مفعول دونوں اس سزا میں برابر ہیں، یہی امام شافعی کا مسلک ہے، اور اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کریں گرچہ وہ شادی شدہ نہ ہوں بشرطیکہ مفعول پر جبر نہ ہوا ہو، بعض لوگوں نے اس پر صحابہ کا اجماع نقل کیا ہے، اور بغوی نے شعبی، زہری، مالک، احمد اور اسحاق سے نقل کیا کہ وہ رجم کیا جائے، شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اگر زانی کا دو بار رجم درست قرار دیا جائے تو اغلام باز کو بھی رجم کیا جائے گا، منذری کہتے ہیں کہ اغلام بازی کرنے والے کو ابوبکر، علی، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم، اور ہشام بن عبدالملک نے زندہ جلایا۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ زیادہ واضح بات یہ ہے کہ اغلام باز کی حد زانی کی حد ہے، اگر وہ شادی شدہ ہو تو رجم کیا جائے گا، ورنہ کوڑے مارے جائیں گے اور جلا وطن کیا جائے گا، اور جس کے ساتھ یہ فعل قبیح کیا گیا ہو یعنی مفعول کو کوڑے لگائے جائیں گے، اور جلا وطن کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام جو سزا مناسب سمجھے وہ دے، لیکن نہ رجم ہو گا اور نہ کوڑے لگائے جائیں گے۔ نواب صدیق حسن فرماتے ہیں کہ فاعل اور مفعول کے قتل کرنے کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا حکم صحیح اور ثابت ہے، اور صحابہ کرام نے اس حکم کی تنفیذ فرمائی یہ بھی ثابت ہے، اور انہوں نے اس عظیم فحش کام کرنے والوں کو شادی اور غیر شادی کی تفریق کے بغیر قتل کیا، اور ان کے زمانے میں ایسا کئی بار ہوا، اور ان میں سے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی، جب کہ مسلمان کے خون بہائے جانے جیسے مسئلے پر کسی مسلمان کے لیے خاموشی جائز نہیں ہے، اور یہ وہ عہد تھا کہ حق بات جو بھی ہو اور جہاں سے بھی ہو مقبول ہوتی تھی، تو اگر اغلام باز کا زانی کے سلسلے کے وارد دلائل کے عموم میں اندراج صحیح ہو تو ہر فاعل چاہے وہ شادی ہو یا غیر شادی شدہ کے قتل کے سلسلے میں وارد دلیل سے وہ عموم مخصوص ہو جائے گا،(ملاحظہ ہو: الروضۃ الندیۃ ۳/۲۸۳- ۲۸۶)