Blog
Books
Search Hadith

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى:‏‏‏‏ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَكَيْفَ أَمَرَ الْمُسْلِمِينَ بِالْوَصِيَّةِ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ .

It was narrated from Malik bin Mighwal that Talhah bin Musarrif said: “I said to Abdullah bin Abu Awfa: 'Did the Messenger of Allah (ﷺ) make a will concerning anything?' He said: 'No.' I said: 'How come he told the Muslims to make wills?' He said: 'He enjoined (them to adhere to) the book of Allah (SWT).” Malik said: “Talhah bin Musarrif said: 'Huzail bin Shurahbil said: “Abu Bakr was granted leadership according to the will of Allah's Messenger (ﷺ)?” (Rather) Abu Bakr wished that the found a covenant (in that regard) from Allah's Messenger (ﷺ), so he could fetter his nose with a (camel's) nose ring.”

طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ
میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کی وصیت کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، میں نے کہا: پھر کیوں کر مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب ( قرآن ) پر چلنے کی وصیت فرمائی ۱؎۔ مالک کہتے ہیں: طلحہ بن مصرف کا بیان ہے کہ ہزیل بن شرحبیل نے کہا: بھلا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہعلیہ وسلم کے وصی پر حکومت کر سکتے تھے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تو یہ حال تھا کہ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پاتے تو تابع دار اونٹنی کی طرح اپنی ناک میں ( اطاعت کی ) نکیل ڈال لیتے۔
Haidth Number: 2696
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

«صحیح البخاری/الوصایا ۱ (۲۷۴۰)، المغازي ۸۳ (۴۴۶۰)، فضائل القران ۱۸ (۵۰۲۲)، صحیح مسلم/الوصایا ۵ (۱۶۳۴)، سنن الترمذی/الوصایا ۴ (۲۱۱۹)، سنن النسائی/الوصایا ۲ (۳۶۵۰)،(تحفة الأ شراف:۵۱۷۰،۱۹۵۰۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۵۴،۳۵۵،۳۸۱)، سنن الدارمی/الوصایا ۳ (۳۲۲۴)

Wazahat

یعنی اس حکم پر سب سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ چلتے اس کے بعد اور لوگ، کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب صحابہ سے زیادہ نبی اکرم ﷺ کے مطیع تھے، ان کے بارے میں گمان بھی نہیں ہو سکتا کہ نبی کریم ﷺ نے کسی اور کو خلیفہ بنانے کے لئے فرمایا ہو اور خود خلافت لے لیں، بلکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تو خلافت کی خواہش ہی نہ تھی، جب ثقیفہ بنو ساعدہ میں صلاح و مشورہ ہوا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ رائے دی کہ دو آدمیوں میں سے ایک کے ہاتھ بیعت کر لو، عمر بن خطاب کے ہاتھ پر یا ابو عبیدہ بن جراح کے ہاتھ پر، اور اپنا نام ہی نہ لیا، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے زبردستی ان سے بیعت کی، اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی بیعت کر لی، آسمان گر پڑے اور زمین پھٹ جائے ان بے ایمانوں پر جو نبی کریم ﷺ کے جانثار جانباز صحابہ کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں، اور معاذ اللہ یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے صراحۃ علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد خلیفہ بنایا تھا اور صحابہ اس کو جانتے تھے، لیکن عمداً انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کا حق دبایا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا: «سبحانك هذا بهتان عظيم» (سورة النور: 16) اگر صراحت تو کیا نبی کریم ﷺ کا ذرا بھی اشارہ ہوتا کہ آپ ﷺ کے بعد علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہیں تو تمام صحابہ جان و دل سے اس حکم کی اطاعت کرتے، اور علی رضی اللہ عنہ کو اسی وقت خلیفہ بناتے بلکہ خلافت کے لئے مشورہ ہی نہ کرتے، کیونکہ جو امر منصوص ہو اس میں صلاح و مشورہ کی کیا حاجت ہے، اگر بالفرض ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حکم کے خلاف بھی کیا ہوتا تو انصار جن کی جماعت بہت تھی وہ کیونکر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت قبول کر لیتے بلکہ حدیث پر چلنے کے لئے ان کو مجبور کر دیتے، وہ تو حدیث کے ایسے ماننے والے تھے کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی: «الأ ئمۃ من قریش» امام قریش میں سے ہوں گے تو انہوں نے اپنی امامت کا دعوی چھوڑ دیا، پھر وہ دوسرے کی امامت حدیث کے خلاف کیسے مانتے، اور سب سے زیادہ تعجب یہ ہے کہ بنی ہاشم اور خود علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کیسے تسلیم کرتے اور ان سے بیعت کیوں کرتے، برا ہو ان کا جو علی رضی اللہ عنہ کو ایسا بزدل مانتے ہیں کہ اپنا واجبی حق بھی نہ لے سکے، معاذ اللہ یہ سب دروغ بے فروغ ہے