Blog
Books
Search Hadith

حجر اسود کے استلام (چومنے یا چھونے) کا بیان

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ الْأُصَيْلِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ إِنِّي لَأُقَبِّلُكَ وَإِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ، ‏‏‏‏‏‏مَا قَبَّلْتُكَ .

It was narrated that ‘Abdullah bin Sarjis said: “I saw the bald forehead of ‘Umar bin Khattab when he kissed the Black Stone and said: ‘I am kissing you, although I know that you are only a stone and you can neither cause harm nor bring benefit. Had I not seen the Messenger of Allah (ﷺ) kissing you, I would not have kissed you.’”

عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ
میں نے «اصیلع» یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو چوم رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: میں تجھے چوم رہا ہوں حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، جو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ فائدہ، اور میں نے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے نہ چومتا ۱؎۔
Haidth Number: 2943
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

«صحیح مسلم/الحج ۴۱ (۱۲۷۰)،(تحفة الأشراف:۱۰۴۸۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج ۵۰ (۱۵۹۷)،۵۷ (۱۶۰۵)،۶۰ (۱۶۱۰)، سنن ابی داود/الحج ۴۷ (۱۸۷۳)، سنن الترمذی/الحج ۳۷ (۸۶۰)، سنن النسائی/الحج ۱۴۷ (۲۹۴۰)، موطا امام مالک/الحج ۳۶ (۱۱۵)، مسند احمد (۱/۲۱،۲۶،۳۴،۳۵،۳۹،۴۶،۵۱،۵۳،۵۴)، سنن الدارمی/المناسک ۴۲ (۱۹۰۶)

Wazahat

«اصیلع»: «اصلع» کی تصغیر ہے جس کے سر کے اگلے حصے کے بال جھڑ گئے ہوں اس کو «اصلع» کہتے ہیں۔ ۲؎: کیونکہ پتھر کا چومنا اسلامی شریعت میں جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں کفار کی مشابہت ہے، کیونکہ وہ بتوں تصویروں اور پتھروں کو چومتے ہیں، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کے سبب سے حجر اسود کا چومنا خاص کیا گیا ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ اگر میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تم کو نہ چومتا، تو پھر دوسری قبروں اور مزاروں کا چومنا کیوں کر جائز ہو گا، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اس لیے فرمایا کہ جاہلیت اور شرک کا زمانہ قریب گزرا تھا، ایسا نہ ہو کہ بعض کچے مسلمان حجر اسود کے چومنے سے دھوکہ کھائیں، اور حجر اسود کو یہ سمجھیں کہ اس میں کچھ قدرت یا اختیار ہے جیسے مشرک بتوں کے بارے میں خیال کرتے تھے، آپ نے بیان کر دیا کہ حجر اسود ایک پتھر ہے اس میں کچھ اختیار اور قدرت نہیں اور اس کا چومنا محض رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدار اور پیروی کے لئے ہے۔