Blog
Books
Search Hadith

رمی کی کنکریاں کتنی بڑی ہونی چاہئیں؟۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحُصَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ الْعَقَبَةِ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ:‏‏‏‏ الْقُطْ لِي حَصًى ، ‏‏‏‏‏‏فَلَقَطْتُ لَهُ سَبْعَ حَصَيَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏هُنَّ حَصَى الْخَذْفِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ يَنْفُضُهُنَّ فِي كَفِّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ أَمْثَالَ هَؤُلَاءِ فَارْمُوا ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ .

It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “On the morning of ‘Aqabah, when he was atop his she-camel, the Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Pick up some pebbles for me.’ So I picked up seven pebbles for him, suitable for Khadhf.* He began to toss them in his hand, saying: ‘Throw something like these.’ Then he said: ‘O people, beware of exaggeration in religious matters for those who came before you were doomed because of exaggeration in religious matters.’”

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کی صبح کو فرمایا، اس وقت آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے: میرے لیے کنکریاں چن کر لاؤ ، چنانچہ میں نے آپ کے لیے سات کنکریاں چنیں، وہ کنکریاں ایسی تھیں جو دونوں انگلیوں کے بیچ آ جائیں، آپ انہیں اپنی ہتھیلی میں ہلاتے تھے اور فرماتے تھے: انہیں جیسی کنکریاں مارو ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! دین میں غلو سے بچو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں اسی غلو نے ہلاک کیا ۱؎۔
Haidth Number: 3029
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

«سنن النسائی/الحج ۲۱۷ (۳۰۵۹)،۲۱۹ (۳۰۶۱)،(تحفة الأشراف:۵۴۲۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۱۵،۳۴۷،۵/۱۲۷)

Wazahat

غلو: کسی کام کو حد سے زیادہ بڑھا دینے اور اس میں ضرورت سے زیادہ سختی کرنے کو غلو کہتے ہیں، مثلاً کنکریاں مارنے کا حکم ہے تو چھوٹی کنکریاں کافی ہیں، اب غلو یہ ہے کہ بڑی بڑی کنکریاں مارے یا پتھر پھینکے اور اس کو زیادہ ثواب کا کام سمجھے، دین کے ہر کام میں غلو کرنا منع ہے اور یہ حماقت کی دلیل ہے، یہ بھی غلو ہے کہ مثلاً کسی نے مستحب یا سنت کو ترک کیا تو اس کو برا کہے اور گالیاں دے، اگر کوئی سنت کو ترک کرے تو صرف نرمی سے اس کوحدیث سنا دینا کافی ہے، اگر لوگ فرض کو ترک کریں تو سختی سے اس کو حکم کرنا چاہئے، لیکن اس زمانہ میں یہ حال ہو گیا ہے کہ فرض ترک کرنے والوں کو کوئی برا نہیں کہتا ہے، لوگ تارکین صلاۃ، شرابیوں اور سود خوروں سے دوستی رکھتے ہیں، لیکن اذان میں کوئی انگوٹھے نہ چومے یا مولود میں قیام نہ کرے تو اس کے دشمن ہو جاتے ہیں، یہ بھی ایک انتہائی درجے کا غلو ہے، اور ایسی ہی باتوں کی وجہ سے مسلمان تباہ ہو گئے، اور جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ویسا ہی ہوا۔