Blog
Books
Search Hadith

میدہ کا بیان

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ،‏‏‏‏ وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُسَهْلَ بْنَ سَعْدٍ هَلْ رَأَيْتَ النَّقِيَّ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ النَّقِيَّ حَتَّى قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ فَهَلْ كَانَ لَهُمْ مَنَاخِلُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ مُنْخُلًا،‏‏‏‏ حَتَّى قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ فَكَيْفَ كُنْتُمْ تَأْكُلُونَ الشَّعِيرَ غَيْرَ مَنْخُولٍ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ كُنَّا نَنْفُخُهُ فَيَطِيرُ مِنْهُ مَا طَارَ،‏‏‏‏ وَمَا بَقِيَ ثَرَّيْنَاهُ .

‘Abdul-‘Aziz bin Abu Hazim said: My father told me: I asked Sahl bin Sa’d: “Did you ever see dough made from well-sifted flour?” He said: “I never saw dough made from well-sifted flour until the Messenger of Allah (ﷺ) passed away.” I said: “Did they have sieves at the time of the Messenger of Allah (ﷺ)?” He said: “I never saw a sieve until the Messenger of Allah (ﷺ) passed away.” I said: “How did you eat barley that was not sifted?” He said: “We used to blow on it, and whatever flew away, flew away, and whatever was left we made dough with it.”

ابوحازم کہتے ہیں کہ
میں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے میدہ دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک میدہ نہیں دیکھا تھا، تو میں نے پوچھا: کیا لوگوں کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چھلنیاں نہ تھیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے کوئی چھلنی نہیں دیکھی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی، میں نے عرض کیا: آخر کیسے آپ لوگ بلا چھنا جو کھاتے تھے؟ فرمایا: ہاں! ہم اسے پھونک لیتے تو اس میں اڑنے کے لائق چیز اڑ جاتی اور جو باقی رہ جاتا اسے ہم گوندھ لیتے ۱؎۔
Haidth Number: 3335
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

«تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۷۳۱، ومصباح الزجاجة:۱۱۵۱)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأطعمة ۲۲ (۵۴۱۰)، سنن الترمذی/الزہد ۳۸ (۲۳۶۴)، مسند احمد (۵/۳۳۲،۶/۷۱)

Wazahat

اور گوندھ کر روٹی پکا لیتے، غرض رسول اکرم ﷺ کے وقت میں آٹا چھاننے کی اور میدہ کھانے کی رسم نہ تھی، یہ بعد کے زمانے کی ایجاد ہے، اور اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے، آٹا جب چھانا جائے، اور اس کا بھوسی بالکل نکل جائے، تو وہ ثقیل اور دیر ہضم ہو جاتا ہے، اور پیٹ میں سدہ اور قبض پیدا کرتا ہے، آخر یہ چھاننے والے لوگ اتنا غور نہیں کرتے کہ رب العالمین نے جو حکیم الحکماء ہے گیہوں میں بھوسی بیکار نہیں پیدا فرمائی، پس بہتر یہی ہے کہ بے چھنا ہوا آٹا کھائے، اور اگر چھانے بھی تو تھوڑی سی موٹی بھوسی نکال ڈالے لیکن میدہ کھانا بالکل خطرناک اور باعث امراض شدیدہ ہے۔