Blog
Books
Search Hadith

عمل قبول نہ ہونے کا ڈر رکھنے کا بیان

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ،‏‏‏‏ وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي صَالِحٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ قَارِبُوا وَسَدِّدُوا،‏‏‏‏ فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ بِمُنْجِيهِ عَمَلُهُ ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ وَلَا أَنَا،‏‏‏‏ إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ .

It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “Be moderate and adhere to moderation, for there is no one among you who will be saved by his deeds.” They said: “Not even you, O Messenger of Allah?” He said: “Not even me. Unless Allah encompasses me with mercy and grace from Him.”

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میانہ روی اختیار کرو، اور سیدھے راستے پر رہو، کیونکہ تم میں سے کسی کو بھی اس کا عمل نجات دلانے والا نہیں ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا: اللہ کے رسول! آپ کو بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور مجھے بھی نہیں! مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت وفضل سے مجھے ڈھانپ لے ۱؎۔
Haidth Number: 4201
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

(سندمیں شریک بن عبداللہ القاضی متفق علیہ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۲۶۰۲)

Takhreej

«تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۳۹۳، ومصباح الزجاجة:۱۴۹۶)

Wazahat

«قاربوا» اور «سددوا» دونوں کے معنی قریب ہی کے ہیں، یعنی عبادت میں اعتدال کرو اور میانہ روی پر مضبوطی سے رہو، جہاں تک خوشی سے ہو سکے عبادت کرو، جب دل اکتا جائے تو عبادت بند کر دو، بعضوں نے کہا: «قاربوا» کا یہ معنی ہے کہ عبادت سے اللہ تعالی کی قربت چاہو، بعضوں نے کہا: کثرت عبادت سے قرب حاصل کرو لیکن صحیح وہی ترجمہ ہے جو اوپر لکھا گیا اور وہی مناسب ہے اس عبادت کے، کسی کو اس کے اعمال نجات نہیں دیں گے، اس حدیث سے فخر اور تکبر کی جڑ کٹ گئی، اگر کوئی عابد اور زہد ہو تو بھی اپنی عبادت پر گھمنڈ نہ کرے، اور گناہگاروں کو ذلیل نہ سمجھے اس لئے کہ نجات فضل اور رحمت الہی پر موقوف ہے، لیکن اس میں شک نہیں کہ اعمال صالحہ اللہ کے فضل و احسان اور اس کی رحمت و رأفت کا قرینہ ہیں، اور ان سے نجات کی امید قوی ہوئی ہے باقی اختیار مالک کو ہے «اللہم اغفرلنا وارحمنا»۔