Blog
Books
Search Hadith

: بدعات اور جدال (بے جا بحث و تکرار) سے اجتناب و پرہیز

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خِدَاشٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَيُّوبُ . ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَيَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏قالا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ سورة آل عمران آية 7 إِلَى قَوْلِهِ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلا أُولُو الأَلْبَابِ سورة آل عمران آية 7، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا عَائِشَةُ، ‏‏‏‏‏‏ إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَهُمُ الَّذِينَ عَنَاهُمُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَاحْذَرُوهُمْ .

It was narrated that 'Aishah said: The Messenger of Allah (ﷺ) recited the following Verse: 'It is He Who has sent down to you (Muhammad) the Book (this Qur'an). In it are verses that are entirely clear, they are the foundations of the Book; and others not entirely clear (up to His saying: ) 'And none receive admonition except men of understanding.' Then he said: 'O 'Aishah, if you see those who dispute concerning it (the Qur'an), they are those whom Allah has referred to here, so beware of them.'

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی: «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن أم الكتاب وأخر متشابهات» اللہ تعالیٰ کے یہ فرمان «وما يذكر إلا أولو الألباب» تک: ( سورة آل عمران: 7 ) ، یعنی: وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب اتاری، جس میں اس کی بعض آیات معلوم و متعین معنی والی محکم ہیں جو اصل کتاب ہیں، اور بعض آیات متشابہ ہیں، پس جن کے دلوں میں کجی اور ٹیڑھ ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں تاکہ فتنہ پھیلائیں اور ان کے معنی مراد کی جستجو کریں، حالانکہ ان کے حقیقی معنی مراد کو سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، اور پختہ و مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان رکھتے ہیں، یہ تمام ہمارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہیں، اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں ۔ اور ( آیت کی تلاوت کے بعد ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! جب ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات میں جھگڑتے اور بحث و تکرار کرتے ہیں تو یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے اس آیت کریمہ میں مراد لیا ہے، تو ان سے بچو ۱؎۔
Haidth Number: 47
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف: ۱۶۲۳۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر آل عمرآن ۱ (۴۵۴۷)، صحیح مسلم/العلم ۱ (۲۶۶۵)، سنن ابی داود/السنة ۲ (۴۵۹۸)، سنن الترمذی/التفسیر ۴ (۲۹۹۳، ۲۹۹۴)، مسند احمد (۶ / ۴۸)، سنن الدارمی/المقدمة ۱۹ (۱۴۷)

Wazahat

پوری آیت اس طرح ہے: «يضاجعها» «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن أم الكتاب وأخر متشابهات فأما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغائ الفتنة وابتغائ تأويله وما يعلم تأويله إلا الله والراسخون في العلم يقولون آمنا به كل من عند ربنا وما يذكر إلا أولوا الألباب» (سورۃ آل عمران: ۷)۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کو دو قسموں محکم اور متشابہ میں تقسیم کیا ہے، محکم اسے کہتے ہیں جس کی دلالت اور جس کا معنی پوری طرح واضح اور ظاہر ہو، اور جس میں کسی طرح کی تاویل اور تخصیص کا احتمال نہ ہو، اور اس پر عمل کرنا واجب ہے، اور متشابہ یہ ہے کہ جس کے معنی تک مجتہد نہ پہنچ پائے، یا وہ مجمل کے معنی میں ہے جس کی دلالت واضح نہ ہو، یا متشابہ وہ ہے جس کی معرفت کے لئے غور و فکر، تدبر اور قرائن کی ضرورت ہو، جس کی موجودگی میں اس کے مشکل معنی کو سمجھا جا سکے، اور محکم کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اصل کتاب فرمایا، پس اہل علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ متشابہ کو محکم سے ملا کر اس کے معنی کو سمجھیں، اور یہی طریقہ سلف کا ہے کہ متشابہ کو محکم کی طرف پھیر دیتے تھے اور یہ جو فرمایا کہ جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں اس متشابہ کی، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ متشابہ کو محکم کی طرف نہیں پھیرتے کہ اس سے مشتبہ وجوہ سے صحیح وجوہ ان کے ہاتھ آ جائے بلکہ دوسری وجوہ باطلہ پر اس کو اتارتے ہیں اور اس میں وہ تمام اقوام باطلہ داخل ہیں جو حق سے پھری ہوئی ہیں اور«وما يعلم تأويله إلا الله» میں مفسرین کے دو قول ہیں: پہلا یہ کہ یہاں وقف ہے، یعنی «إلا الله» پر اور یہیں پر کلام تمام ہو گیا، اور اس صورت میں آیت سے مراد یہ ہو گا کہ تاویل یعنی متشابہات کی حقیقت کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا، اور اکثر مفسرین اسی کی طرف گئے ہیں، اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں وقف نہیں ہے، اور «والراسخون في العلم» معطوف ہے اپنے ماقبل والے جملہ پر یعنی ان متشابہات کا علم اور ان کی تاویل و تفسیر اللہ تبارک و تعالیٰ اور علماء راسخین کو معلوم ہے، بعض مفسرین اس طرف بھی گئے ہیں۔