Blog
Books
Search Hadith

رائے اور قیاس سے اجتناب و پرہیز

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الرِّجَالِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى نَشَأَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا بِالرَّأْيِ، ‏‏‏‏‏‏فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا .

It was narrated that 'Abdullah bin 'Amr bin 'As said: I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: 'The affairs of the Children of Israel remained fair until Muwalladun emerged among them - the children of female slaves from other nations. They spoke of their own opinions (in religious matters) and so they went astray and led others astray.'

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: بنی اسرائیل کا معاملہ ہمیشہ ٹھیک ٹھاک رہا یہاں تک کہ ان میں وہ لوگ پیدا ہو گئے جو جنگ میں حاصل شدہ عورتوں کی اولاد تھے، انہوں نے رائے ( قیاس ) سے فتوی دینا شروع کیا، تو وہ خود بھی گمراہ ہوئے، اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۱؎۔
Haidth Number: 56
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

(سند میں سوید بن سعید ضعیف اور مدلس ہیں، اور کثرت سے تدلیس کرتے ہیں، ابن ابی الرجال کے بارے میں بوصیری نے کہا ہے کہ وہ حارثہ بن محمد عبد الرحمن ہیں، اور وہ ضعیف راوی ہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ عبد الرحمن بن ابی الرجال محمد بن عبدالرحمن بن عبد اللہ بن حارثہ بن النعمان الانصاری المدنی ہیں، جو صدوق ہیں لیکن کبھی خطا ٔ کا بھی صدور ہوا ہے، ابن حجر فرماتے ہیں: «صدوق ربما أخطأ»، نیز ملاحظہ ہو ''مصباح الزجاجة'' بتحقیق د؍عوض الشہری: ۱/ ۱۱۷- ۱۱۸)

Takhreej

تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۸۸۸۲)، (مصباح الزجاجة: ۲۱)

Wazahat

یعنی بنی اسرائیل میں ساری برائی رائے کے پھیلنے سے اور وحی سے اعراض کرنے سے ہوئی، اور ہر امت کی بربادی اسی طرح ہوتی ہے کہ جب وہ اپنی رائے کو وحی الٰہی پر مقدم کرتے ہیں تو برباد ہو جاتے ہیں، اس امت میں بھی جب سے کتاب و سنت سے اعراض پیدا ہوا، اور لوگوں نے باطل آراء اور فاسد قیاس سے فتوی دینا شروع کیا، اور پچھلوں نے ان کی آراء اور قیاس کو وحی الٰہی اور ارشاد رسالت پر ترجیح دی، جب ہی سے ایک صورت انتشار اور پھوٹ کی پیدا ہوئی اور مختلف مذاہب وجود میں آ گئے، اور امت میں اتحاد و اتفاق کم ہوتا گیا، اور ہر ایک نے کتاب و سنت سے اعراض کر کے کسی ایک کو اپنا امام و پیشوا مقرر کر کے اسی کو معیار کتاب و سنت ٹھہرایا، جب کہ اصل یہ ہے کہ ہر طرح کے مسائل میں مرجع اور مآخذ کتاب و سنت اور سلف صالحین کا فہم و منہج ہے، اور اس کی طرف رجوع ہونے میں امت کے اتحاد کی ضمانت ہے، اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے: «تركت فيكم أمرين لن تضلّوا ما إن تمسكتم بهما كتاب الله وسنتي» میں تمہارے درمیان دو چیزیں یعنی کتاب و سنت چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انہیں (عملاً) پکڑے رہو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے ۔