عرباض بن ساریہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک روز رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی ، پھر آپ نے اپنا رخ انور ہماری طرف کیا تو ایک بڑے بلیغ انداز میں ہمیں وعظ و نصیحت فرمائی جس سے آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور دل ڈر گئے ، ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو الوداعی نصیحتیں معلوم ہوتی ہیں ، پس آپ ہمیں وصیت فرمائیں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے ، سننے اور اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں خواہ وہ (امیر) حبشی غلام ہو ، کیونکہ تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا ، پس تم پر میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے ، پس تم اس سے تمسک اختیار کرو اور داڑھوں کے ساتھ اسے پکڑ لو ، اور دین میں نئے کام جاری کرنے سے بچو ، کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘ احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ۔ البتہ امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے نماز کا ذکر نہیں کیا ۔ صحیح ، رواہ احمد (۴/ ۱۲۶ ، ۱۲۷ ح ۱۷۲۷۵) و ابوداؤد (۴۶۰۷) و الترمذی (۲۶۷۶) و ابن ماجہ (۴۳) و ابن حبان (۱۰۲) و الحاکم (۱/ ۹۵ ، ۹۶) ۔
صحیح ، رواہ احمد (۴ / ۱۲۶ ، ۱۲۷ ح ۱۷۲۷۵) و ابوداؤد (۴۶۰۷) و الترمذی (۲۶۷۶ وقال : حسن صحیح) و ابن ماجہ (۴۳) [و صححہ ابن حبان (الموارد : ۱۰۲) و الحاکم (۱ / ۹۵ ، ۹۶) و وافقہ الذھبی] ۔