کثیر بن قیس بیان کرتے ہیں ، میں ابودرداء ؓ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور اس نے کہا : ابودرداء ! میں رسول اللہ ﷺ کے شہر سے ایک حدیث کی خاطر تمہارے پاس آیا ہوں ، مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ اسے رسول اللہ ﷺ سے (براہ راست) بیان کرتے ہیں ۔ میں کسی اور کام کے لیے نہیں آیا ، انہوں نے بیان کیا ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جو شخص طلب علم کے لیے سفر کرتا ہے تو اللہ اسے جنت کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے ، فرشتے طالب علم کی رضامندی کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں ، زمین و آسمان کی ہر چیز اور پانی کی گہرائی میں مچھلیاں طالب علم کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں ، بے شک عالم کی عابد پر اس طرح فضیلت ہے جس طرح چودھویں رات کے چاند کو باقی ستاروں پر برتری ہے ، بے شک علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں ۔ اور انبیاء علیہم السلام درہم و دینار نہیں چھوڑ کر جاتے بلکہ وہ تو صرف علم چھوڑ کر جاتے ہیں ، پس جس نے اسے حاصل کر لیا اس نے وافر حصہ حاصل کر لیا ۔‘‘ امام ترمذی نے راوی کا نام قیس بن کثیر ذکر کیا ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ احمد (۵/ ۱۹۶ ح ۲۲۰۵۸) و الترمذی (۲۶۸۲) و ابوداؤد (۳۶۴۱) و ابن ماجہ (۲۲۳) و الدارمی (۱/ ۹۹ ح ۳۴۹) و ابن حبان (۸۰) ۔
سندہ ضعیف ، رواہ احمد (۵ / ۱۹۶ ح ۲۲۰۵۸) و الترمذی (۲۶۸۲ وقال : ولیس اسنادہ عندی بمتصل( و ابوداؤد (۳۶۴۱) و ابن ماجہ (۲۲۳) و الدارمی (۱ / ۹۹ ح ۳۴۹) [و ابن حبان ، الموارد : ۸۰] * داود بن جمیل و کثیر بن قیس ضعیفان و للحدیث شواھد ضعیفۃ و حدیث مسلم (السابق : ۲۰۴) یغنی عنہ ۔