حارث اعور ؒ بیان کرتے ہیں ، میں مسجد سے گزرا تو لوگ باتوں میں مشغول تھے ، میں علی ؓ کے پاس گیا اور انہیں بتایا تو انہوں نے فرمایا : کیا انہوں نے ایسے کیا ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں ، انہوں نے فرمایا : سن لو ! بے شک میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ سن لو ! عنقریب فتنے پیدا ہوں گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ان سے بچنے کا کیا طریقہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کی کتاب ، اس میں سابقہ قوموں کے احوال اور مستقبل کے اخبار اور تمہارے مسائل کا حل ہے ، وہ فیصلہ کن ہے ، بے فائدہ نہیں ، جس نے ازراہ تکبر اسے ترک کر دیا ، اللہ نے اسے ہلاک کر ڈالا ، جس نے اس کے علاوہ کسی اور چیز سے ہدایت تلاش کرنے کی کوشش کی تو اللہ نے اسے گمراہ کر دیا ، وہ اللہ کی مضبوط رسی (یعنی وسیلہ) ہے ، وہ ذکر حکیم اور صراط مستقیم ہے ، اس کی وجہ سے خواہیش ٹیڑھی ہوتی ہیں نہ زبانیں اختلاط و التباس کا شکار ہوتی ہیں اور نہ علما اس سے سیر ہوتے ہیں ، کثرت تکرار سے وہ پرانی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے عجائب ختم ہوتے ہیں ، وہ ایسی کتاب ہے کہ جسے سن کر جن بے ساختہ پکار اٹھے کہ ’’ہم نے عجب قرآن سنا ہے جو رشد و بھلائی کی طرف راہنمائی کرتی ہے لہذا ہم اس پر ایمان لے آئے ۔‘‘ جس نے اس کے حوالے سے کہا ، اس نے سچ کہا ، جس نے اس کے مطابق عمل کیا وہ اجر پا گیا ، جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے عدل کیا اور جس نے اس کی طرف بلایا وہ صراط مستقیم کی طرف ہدایت پا گیا ۔‘‘ ترمذی ، دارمی ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا : اس حدیث کی سند مجہول ہے اور حارث پر کلام کیا گیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ۔