عطا بن سائب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : عمار بن یاسر ؓ نے ہمیں نماز پڑھائی تو اس میں اختصار کیا تو کچھ لوگوں نے انہیں کہا : آپ نے نماز میں تخفیف اور اختصار کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑا ، میں نے اس میں کچھ دعائیں کی ہیں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھیں ، جب وہ (جانے کے لئے) کھڑے ہوئے تو ان لوگوں میں سے ایک آدمی ، وہ میرے والد ہی تھے لیکن انہوں نے اپنا نام چھپائے رکھا ، ان کے پیچھے پیچھے گیا اور ان سے دعا کے متعلق دریافت کیا ، پھر واپس آ کر اسے لوگوں کو بتایا :’’ اے اللہ ! اپنے علم غیب اور مخلوق پر اپنی قدرت کے ذریعے اس وقت تک زندہ رکھنا جب تک میرا زندہ رہنا تیرے علم کے مطابق میرے لئے بہتر ہو ۔ اور جب تو سمجھے کہ میرا فوت ہونا میرے لئے بہتر ہے تو مجھے فوت کر دینا ، اے اللہ ! میں غیب و حاضر میں تجھ سے کلمہ حق کا سوال کرتا ہوں ، میں فقر و غنی میں تجھ سے میانہ روی کا سوال کرتا ہوں ، میں ختم نہ ہونے والی نعمتوں کا تجھ سے سوال کرتا ہوں ، میں منقطع نہ ہونے والی آنکھوں کی ٹھنڈک کا تجھ سے سوال کرتا ہوں ، میں قضا کے بعد رضا کا تجھ سے سوال کرتا ہوں ، میں موت کے بعد خوشگوار زندگی کا تجھ سے سوال کرتا ہوں ، میں کسی شدید تکلیف اور گمراہ کن فتنے کے بغیر تیری ملاقات کے شوق اور تیرے چہرے کو دیکھنے کی لذت کا تجھ سے سوال کرتا ہوں ، اے اللہ ! زینت ایمان سے ہمیں مزین فرما اور ہمیں ہدایت پر ثابت رہنے والے ہادی بنا ۔‘‘ حسن ، رواہ النسائی ۔