سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں ، فتح مکہ کے سال میں شدید بیمار ہو گیا حتی کہ میں موت کے کنارے پہنچ گیا ، رسول اللہ ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میرے پاس مال بہت زیادہ ہے ۔ اور میری صرف ایک بیٹی اس کی وارث ہے ، کیا میں اپنے سارے مال کے متعلق وصیت کر دوں ؟ فرمایا :’’ نہیں ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اپنے مال کا دو تہائی ؟ فرمایا :’’ نہیں ۔‘‘ میں نے عرض کیا : نصف ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ نہیں ۔‘‘ میں عرض کیا ، تہائی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تہائی ، جبکہ تہائی بھی زیادہ ہے ، اگر تم اپنے وارثوں کو مال دار چھوڑو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ تنگ دست ہوں اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔ اور تم اللہ کی رضا کے لیے جو بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں اجر دیا جائے گا ، حتی کہ وہ لقمہ جو تم اپنی اہلیہ کے منہ تک پہنچاتے ہو ۔‘‘ متفق علیہ ۔