ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ہلال بن امیہ نے نبی ﷺ کے پاس اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ ثبوت پیش کرو ، ورنہ تیری پشت پر حد قائم ہو گی ۔‘‘ اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جب ہم میں سے کوئی اپنی بیوی کو حالت زنا میں دیکھے تو کیا وہ گواہ تلاش کرنے چلا جائے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پشت پر حد قائم کی جائے گی ۔‘‘ ہلال ؓ نے عرض کیا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ! میں یقیناً سچا ہوں اللہ ایسا حکم ضرور نازل فرمائے گا جو مجھے حد سے بچا لے گا ۔ پس جبریل ؑ تشریف لائے اور آپ ﷺ پر یہ آیات نازل فرمائیں :’’ جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں ......... اگر وہ سچوں میں سے ہے ۔‘‘ ہلال آئے تو انہوں نے گواہی دی (یعنی لعان کیا) جبکہ نبی ﷺ فرما رہے تھے :’’ یقیناً تم میں سے ایک جھوٹا ہے تو کیا وہ توبہ کرنے کے لیے تیار ہے ؟‘‘ پھر عورت کھڑی ہوئی تو اس نے گواہی دی (لعان کیا) جب وہ پانچویں گواہی پر پہنچی تو انہوں نے اسے روکا اور انہوں نے کہا کہ یہ (پانچویں گواہی) واجب کرنے والی ہے ؟ ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس نے توقف کیا اور خاموشی اختیار کی حتی کہ ہم نے سمجھا کہ وہ (اپنے مؤقف سے) رجوع کر لے گی ، پھر اس نے کہا : میں ہمیشہ کے لیے اپنی قوم کو رسوا نہیں کروں گی ۔ چنانچہ اس نے پانچویں گواہی بھی دے دی تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اسے دیکھو اگر یہ سرمئی آنکھوں والے ، بڑے سرین والے اور موٹی پنڈلیوں والے بچے کو جنم دے تو پھر وہ شریک بن سحماء کا ہے ۔‘‘ اس نے اسی طرح کے بچے کو جنم دیا تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اگر اللہ کا حکم (کہ لعان کے بعد حد جاری نہیں کی جائے گی) پہلے سے نہ آیا ہوتا تو میں اسے ضرور سزا دیتا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔