ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، اسلمی (ماعز ؓ) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی ذات کے خلاف چار مرتبہ گواہی دی کہ اس نے ایک عورت کے ساتھ حرام کام (زنا) کا ارتکاب کیا ہے ۔ آپ ہر مرتبہ اس سے اعراض فرماتے رہے ، پانچویں مرتبہ آپ ﷺ نے توجہ فرمائی تو پوچھا :’’ کیا تم نے اس سے جماع کیا ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا : جی ہاں ، فرمایا :’’ حتی کہ تمہاری یہ چیز (شرم گاہ) اس عورت کی اس چیز (شرم گاہ) میں گم ہو گئی ۔‘‘ اس نے عرض کیا ، جی ہاں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جس طرح سلائی سرمے دانی میں اور رسی کنویں میں داخل ہو (کر غائب ہو) جاتی ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا : جی ہاں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم جانتے ہو زنا کیا ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا : جی ہاں ، میں نے اس کے ساتھ حرام طور پر وہ کام کیا ہے جو آدمی حلال طور پر اپنی اہلیہ کے ساتھ کرتا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم اپنے اس قول و اقرار سے کیا چاہتے ہو ؟‘‘ اس نے عرض کیا : میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پاک فرما دیں ، آپ نے اس کے متعلق حکم فرمایا تو اسے رجم کر دیا گیا ۔ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ میں سے دو آدمیوں کو سنا کہ ان میں سے ایک اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا : اس آدمی کو دیکھو جس کی اللہ نے ستر پوشی کی تھی ، اس کے نفس نے اسے نہ چھوڑا حتی کہ وہ کتے کی طرح سنگسار کر دیا گیا ، آپ ﷺ نے ان کے متعلق خاموشی اختیار فرمائی ، پھر کچھ دیر چلے حتی کہ آپ ایک مردار گدھے کے پاس سے گزرے جس نے اپنی ٹانگ اٹھا رکھی تھی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ فلاں فلاں شخص کہاں ہیں ؟‘‘ ان دونوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم حاضر ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دونوں نیچے اترو اور اس مردار گدھے کا گوشت کھاؤ ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! اسے کون کھائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے ابھی جو اپنے بھائی کی عزت خراب کی وہ اسے کھانے سے بھی زیادہ سنگین ہے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! وہ تو اب جنت کی نہروں میں غوطہ زنی کر رہا ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔