ابن عائذ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کسی آدمی کے جنازے کے ساتھ تشریف لائے ، جب اسے رکھا گیا تو عمر بن خطاب ؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس کی نمازِ جنازہ مت پڑھائیں کیونکہ یہ فاجر شخص ہے ، رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی طرف توجہ فرما کر پوچھا :’’ کیا تم میں سے کسی نے اسے اسلام کا کوئی عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا : جی ہاں ، اللہ کے رسول ! اس نے ایک رات اللہ کی راہ میں پہرہ دیا تھا ، رسول اللہ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس (کی قبر) پر مٹی ڈالی ۔ اور فرمایا :’’ تیرے ساتھیوں کا گمان ہے کہ تو جہنمی ہے ، جبکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو جنتی ہے ۔‘‘ اور فرمایا : عمر ! تجھ سے لوگوں کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا ، لیکن تجھ سے عقیدہ کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان (۴۲۹۷ ، نسخۃ محققۃ : ۳۹۸۸) و احمد بن منیع (کما فی المطالب العالیۃ ۳ / ۵۴ ح ۹۱۱) * فیہ شعوذ بن عبد الرحمن : و ثقہ ابن حبان وحدہ فیما اعلم و ابن عائذ عن عمر : مرسل ، و للحدیث شاھد ضعیف عند الطبرانی ، انظر مجمع الزوائد (۵ / ۲۸۸) ۔