ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب اللہ نے آدم ؑ کو پیدا فرمایا اور ان میں روح پھونکی تو انہوں نے چھینک ماری اور الحمد للہ کہا ، انہوں نے اللہ کی توفیق سے اس کی حمد بیان کی ، تو ان کے رب نے انہیں کہا : اللہ تجھ پر رحم کرے ، آدم ! فرشتوں کی اس جماعت کی طرف جاؤ جو بیٹھی ہوئی ہے ، (وہاں جا کر) کہو : السلام علیکم ! انہوں نے کہا : السلام علیکم ! انہوں نے کہا : علیک السلام و رحمۃ اللہ ! پھر وہ وہاں سے اپنے رب کے پاس واپس آئے تو اس نے فرمایا :’’ بے شک یہ تمہارا اور تیری اولاد کا باہمی سلام ہے ۔ اللہ نے انہیں حکم دیا جبکہ اس کے دونوں ہاتھ بند تھے ، تم دونوں میں سے جسے چاہو اختیار کر لو ، انہوں نے کہا : میں نے اپنے رب کا دایاں ہاتھ منتخب کر لیا جبکہ میرے رب کے دونوں ہاتھ دائیں بابرکت ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے دائیں ہاتھ کو پھیلایا تو اس میں آدم ؑ اور ان کی اولاد تھی ، انہوں نے عرض کیا ، رب جی ! یہ کون ہیں ؟ فرمایا : یہ تمہاری اولاد ہے ، ہر انسان کی عمر اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھی ہوئی تھی ، اور ان میں ایک ایسا آدمی تھا جو ان سب سے زیادہ روشن (چہرے والا) تھا ، انہوں نے عرض کیا ، رب جی ! یہ کون ہے ؟ فرمایا : یہ آپ کے بیٹے داؤد ؑ ہیں ، اور میں نے ان کی عمر چالیس سال لکھی ہے ، انہوں نے عرض کیا : رب جی ! اس کی عمر میں اضافہ فرما ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بس یہی ہے جو میں نے اس کے لیے لکھ دی ہے ، انہوں نے عرض کیا ، رب جی ! میں نے اپنی عمر سے ساٹھ سال اسے عطا کر دیے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ تیرا معاملہ ہے ، فرمایا : پھر وہ جس قدر اللہ نے چاہا جنت میں رہے ، پھر وہاں سے اتار دیے گئے ، اور آدم ؑ اپنی عمر شمار کیا کرتے تھے ، جب موت کا فرشتہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا : تم جلدی آ گئے ہو کیونکہ میری عمر تو ہزار برس لکھی گئی تھی ، اس نے عرض کیا ، جی ہاں ، (درست ہے) لیکن آپؑ نے اپنے بیٹے داؤد ؑ کو ساٹھ سال دے دیے تھے ، انہوں نے انکار کیا اسی وجہ سے ان کی اولاد نے بھی انکار کیا ، اور وہ بھول گئے اسی وجہ سے ان کی اولاد بھی بھول جاتی ہے ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسی دن سے لکھنے اور گواہی دینے کا حکم فرمایا گیا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔