حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا اس خیر (یعنی اسلام) کے بعد شر ہو گا جس طرح اس سے پہلے شر (یعنی کفر) تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں !‘‘ میں نے عرض کیا : بچاؤ کا کوئی راستہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تلوار ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، کیا تلوار کے بعد (اہل اسلام میں سے) کوئی باقی ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ امارت کے نتیجہ میں فساد ہو گا ، صلح نفاق پر ہو گی اور اتحاد مفاد پرستی پر ہو گا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، پھر کیا ہو گا ؟ فرمایا :’’ داعیان گمراہی ظاہر ہوں گے ، اگر اللہ کے لیے زمین پر کوئی خلیفہ ہو وہ (از راہ ظلم) تیری پشت پر مارے اور تیرا مال لے لے تو تو اس کی اطاعت کر ، بصورت دیگر (اگر خلیفہ نہ ہو) تو اس طرح فوت ہو کہ تو درخت کی جڑ پکڑے ہوئے ہو ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، پھر کیا ہو گا ؟ فرمایا :’’ پھر اس کے بعد دجال کا ظہور ہو گا اس کے ساتھ نہر اور آگ ہو گی ، جو شخص اس کی آگ میں داخل ہو گیا تو اس کا اجر واجب ہو گیا اور اس کے گناہ مٹا دیے گئے ، اور جو شخص اس کی نہر میں داخل ہو گیا تو اس کا گناہ واجب ہو گیا اور اس کا اجر ختم کر دیا گیا ۔‘‘ حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، پھر کیا ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ پھر گھوڑے کا بچہ پیدا ہو گا اور وہ ابھی سواری کے قابل نہیں ہو گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی ۔‘‘ ایک روایت میں ہے ، فرمایا :’’ کدورت پر صلح ، اور مفاد پر اعتماد ہو گا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کدورت پر صلح سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ لوگوں کے دل (محبت کی) اس حالت پر نہیں آئیں گے جس پر وہ پہلے تھے ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اس خیر کے بعد شر ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اندھا بہرا فتنہ ، اس (فتنے) پر داعیان ہوں گے (گویا) وہ ابواب جہنم پر (کھڑے) ہیں ، حذیفہ ! اگر تم درخت کی جڑ کو پکڑے ہوئے فوت ہوئے تو وہ تیرے لیے اس سے بہتر ہے کہ تو ان میں سے کسی (فتنے) کی اتباع کرے ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔