عکرمہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ اہل عراق سے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے عرض کیا : ابن عباس ! کیا آپ جمعہ کے روز غسل کرنا واجب سمجھتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : نہیں ، لیکن پاکیزگی کا باعث اور بہتر ہے ، اور جو شخص غسل نہ کرے تو اس پر واجب نہیں ، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ غسل کا آغاز کیسے ہوا ، لوگ محنت کش تھے ، اونی لباس پہنتے تھے ، وہ اپنی کمر پر بوجھ اٹھاتے تھے ، ان کی مسجد تنگ تھی اور چھت اونچی نہیں تھی ، بس وہ ایک چھپر سا تھا ، رسول اللہ ﷺ گرمیوں کے دن تشریف لائے تو لوگ اس اونی لباس میں پسینے سے شرابور تھے ، حتیٰ کہ ان سے بو پھیل گئی اور وہ ایک دوسرے کے لیے باعث اذیت بن گئی ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے یہ بو محسوس کی تو فرمایا :’’ لوگو ! جب یہ (جمعہ کا) دن ہو تو غسل کرو اور جو بہترین تیل اور خوشبو میسر ہو وہ استعمال کرو ۔‘‘ ابن عباس ؓ نے فرمایا : پھر اللہ نے مال عطا کر دیا تو انہوں نے غیر اونی کپڑے پہن لیے ، کام کرنے کی ضرورت نہ رہی ۔ ان کی مسجد کی توسیع کر دی گئی اور ایک دوسرے کو اذیت پہنچانے والی وہ پسینے کی بو جاتی رہی ۔ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
حسن ، رواہ ابوداؤد (۳۵۳) [و صححہ ابن خزیمۃ (۱۷۵۵) و الحاکم علی شرط البخاری (۱ / ۲۸۰ ، ۲۸۱) و وافقہ الذھبی (!) و حسنہ الحافظ فی فتح الباری (۲ / ۳۶۲)] ۔