اسماء بنت یزید ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں تھے ، آپ نے دجال کا ذکر کیا تو فرمایا :’’ اس سے پہلے تین قسم کے قحط ہوں گے ، ایک قحط یہ ہو گا کہ اس میں آسمان تہائی بارش روک لے گا ، زمین اپنی تہائی نباتات روک لے گی ، دوسرے میں یہ ہو گا کہ آسمان اپنی دو تہائی بارش روک لے گا ، زمین اپنی دو تہائی نباتات روک لے گی ، اور تیسرے میں آسمان اپنی ساری بارش روک لے گا ، اور زمین اپنی تمام نباتات روک لے گی چوپاؤں میں سے کوئی کھر والا باقی بچے گا نہ کوئی کچلی والا ، سب ہلاک ہو جائیں گے ، اس کا سب سے شدید فتنہ یہ ہو گا کہ وہ اعرابی کے پاس آئے گا تو کہے گا ، مجھے بتاؤ اگر میں تمہارے اونٹ کو زندہ کر دوں تو کیا تجھے یقین نہیں آئے گا کہ میں تمہارا رب ہوں ؟ وہ کہے گا : کیوں نہیں ، شیطان اس کے لیے اس کے اونٹ کی صورت اختیار کر لے گا ، تو اس کے تھن بہترین ہو جائیں گے اور اس کی کوہان بہت بڑی ہو جائے گی ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ (دجال) دوسرے آدمی کے پاس آئے گا جس کا بھائی اور والد وفات پا چکے ہوں گے ، تو وہ (اسے) کہے گا ، مجھے بتاؤ اگر میں تمہارے لیے تمہارے والد اور تمہارے بھائی کو زندہ کر دوں تو کیا تجھے یقین نہیں ہو گا کہ میں تمہارا رب ہوں ؟ وہ کہے گا ، کیوں نہیں ، شیطان اس کے لیے اس کے والد اور اس کے بھائی کی صورت اختیار کر لے گا ۔‘‘ اسماء ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ اپنی کسی ضرورت کی خاطر تشریف لے گئے ، پھر واپس آ گئے ، اور لوگ آپ کے بیان کردہ فرمان میں فکر و غم کی کیفیت میں تھے ، بیان کرتی ہیں ، آپ ﷺ نے دروازے کی دہلیز پکڑ کر فرمایا :’’ اسماء کیا حال ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ نے دجال کے ذکر سے ہمارے دل نکال کر رکھ دیے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر وہ میری زندگی میں نکل آیا تو میں اس کا مقابلہ کروں گا ، ورنہ میرا رب ہر مومن پر میرا خلیفہ ہے ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم اپنا آٹا گوندھتی ہیں اور روٹی پکا کر ابھی فارغ بھی نہیں ہوتیں کہ پھر بھوک لگ جاتی ہے ، تو اس روز مومنوں کی کیا حالت ہو گی ؟ فرمایا :’’ تسبیح و تقدیس جو آسمان والوں کے لیے کافی ہوتی ہے وہی ان کے لیے کافی ہو گی ۔‘‘ حسن ، رواہ احمد ۔
حسن ، رواہ احمد (۶ / ۴۵۳ ۔ ۴۵۴ ح ۲۸۱۲۰) [و الطبرانی (۲۴ / ۱۵۸ ح ۴۰۵ و سندہ حسن ۔ ۱۶۱)] * انظر النھایۃ فی الفتن و الملاحم (ح ۲۶۳ بتحقیقی) لمزید التحقیق ۔ * قلت : قتادۃ لم ینفرد بہ ، بل تابعہ ثابت و حجاج بن الاسود و عبد العزیز بن صھیب بہ ، فالحدیث حسن ۔